48

اپنااعتماد بحال کرنا پڑے گا !

اپنااعتماد بحال کرنا پڑے گا !

ملک بحران در بحران سے دوچار ہے اور اہل سیاست ملک کو درپیش بحرانوں سے نجات دلانے کی مشترکہ کائوش کر نے کے بجائے دست گر یباں ہو رہے ہیں ، گزشتہ دنوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذاکرات کے اعلان سے اُمید پیدا ہونے لگی تھی کہ جلد ہی سیاسی قیادت تنائوکو کسی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ لیکن خیبرپختونخوا اور وفاق میں سیاسی محاذ آرائی کی تازہ صورتحال سے ساری اُمیدیں دم توڑنے لگی ہیں،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے پہلے وزیر اعلی پنجاب کو للکارا اور بعدازاں افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے اپنا وفد بھیجنے کا اعلان کردیا ہے

،جبکہ اس اعلان کو وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے فیڈریشن پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی صوبہ کسی دوسرے ملک سے براہِ راست مذاکرات نہیں کر سکتا‘ یہ امر ملکی سلامتی کو دائوپر لگانے کے مترادف ہے، لیکن حکومت خود مذاکرات کررہی ہے نہ ہی اپنی پا لیسی پر نظر ثانی کررہی ہے ، سارا ملبہ اپنے سیاسی مخالفین پر ڈال کرڈنگ ٹپائے جارہی ہے۔اگر دیکھا جائے تو اتحادی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے ، ملک و عوام کی بھلائی کے اقدامات کر نے اور عوام کے مسائل کا تدارک کر نے کے بجائے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے اور عوام پر پے در پے بوجھ ڈالنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کررہی ہے

،اس لیے ہی صوبہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتی ہیں ، گزشتہ دنوں سندھ کی صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے شکوئے شکایت کررہی تھی اور اب خیبر پختون خواہ اور بلو چستان حکومت اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہیں ، خیبر پختوں خواہ اور بلو چستان حکومت کو جہاں اپنے فنڈز اور اپنے واجبات بروقت نہ ملنے کا گلہ ہے ،وہاں بھڑتی دہشت گردی کاسامنا کر نے کا بھی ملال ہے ، اس پر وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا بالکل بجا ہے کہ ایک عرصے سے دہشت گردی میں خیبر پختوخوا کے لوگوں کا نا حق خون بہہ رہا ہے اور انہیں کچھ بتایا جارہا ہے نہ ہی دہشت گردی سے چھٹکارہ دلا یا جارہا ہے، اگر اتحادی حکومت کچھ کر نے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے تو پھر ہم سب کچھ اپنے لیے خود ہی کریں گے؟
یہ وقت آپس میں محاذ آرائی کا ہے نہ ہی ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے اور اراستے سے ہٹانے کا ہے ، بلکہ ایک دوسرے کے معاملات سمجھنے کا ہے اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے ، اگر سارے ہی ایک دوسرے اُلجھتے رہیں گے تو معاملات کیسے سلجھیں گے ، اس بات کی زیادہ ذمہ داری حکومت وقت پر ہی آتی ہے ، لیکن حکومت اپنی ذ مہ داریوں سے عہدا برا ہورہی ہے نہ ہی اپنی کو تاہیوں کا آزالہ کر رہی ہے ، بلکہ جلتی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کیے جارہی ہے،وفاقی حکومت کاکام ہے

کہ صوبائی حکومتوںکو ساتھ لے کر چلے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرے ، لیکن اس کے بر عکس معاملات کو ہوا دی جارہی ہے ، ایک سے بڑھ کر ایک بیان داغے جار ہے ہیں اور معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑے جار ہے ہیں ، اس کا ملک دشمن قوتوں کو ہی فائدہ ہورہا ہے اوروہ پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں ، ملک میں دہشت گردی پھلارہے ہیں اور وفاق کو صوبوں سے لڑارہے ہیں۔
ملک دشمن تو ایسا ہی کچھ کرے گا ، لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کسی ایک صوبے کا نہیں

،بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور پوری قوم کو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث عناصر کو افغانستان سے ملنے والی کمک کے خاتمے کے لیے متحد ہو کر کوشش کرنی چاہیے، اس طرح ہی خیبر پختونخوا کو وفاق کی ذمہ داریوں پر سوال اٹھانے سے قبل دیکھنا چاہیے کہ نیشنل ایکشن پلان میں صوبائی حکومتوں کو جو ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں‘ خیبر پختونخوا حکومت کس حد تک اْن ذمہ داریوں سے عہدہ براہوسکی ہے، دہشت گردی کے خلاف صوبائی پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کی استعداد کار کو کس حد تک بڑھایا گیا ہے

،صوبائی حکومت کو خارجہ امور پر بات کر نے اور اپنے ہاتھ میں لینے سے پہلے داخلی امور پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے،جبکہ دوسری جانب وفاقی حکومت کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے اور ہر ایک پر دہشت گرد اور غدار ی کا لیبل لگانے کے بجائے دہشت گرد اور اپنے حق کیلئے آواز بلند کر نے والے میں تفریق کر نی چاہئے،تاکہ وفاق اور صوبوں میں مخاصمت کا تاثر زائل ہو سکے اور بیرونی دشمنوں کو بھی ایک مضبوط پیغام جا سکے کہ ملکی سالمیت کی خاطر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں خم ٹھونک کر متحد کھڑی ہیں۔
اس وقت پاکستان جن داخلی اور خارجی بحران سے گزررہا ہے، اس سے تن تنہا حکومت نپٹ سکتی ہے نہ ہی صوبائی حکومت اکیلئے کچھ کر سکتی ہے ،یہ کام اجتماعی سطح پر ہی کر نا ہوگا اور سب فریقین کو اپنا اپنا کردار ادا کر نا پڑے گا ، اپناحصہ ڈالنا پڑے گا، اپنا کھویا اعتماد بحال کر نا پڑے گا،حکومت کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ محاز آرائی کو ہوا دینے کے بجائے خود آگے بڑھ کر محاذ آرائی کی سیاست کے خاتمہ میں قیادت کرتے ہوئے نظر آئے اور اس تاثر کی نفی کرے کہ وہ محاذ آرائی پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے،اس کے بعد ہی معالات سلجھ پائیں گے ،سارے مل کر آگے بڑھ پائیں گے اور ملک کے حالات بہتر ہو پائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں