انارکی جانب دھکیلا جارہا ہے !
پاکستان بے پناہ مشکلات دوچارہے اور ان مشکلات میں اضافے کی وجہ سیاستدانوں کی آپس کی نہ ختم ہونے والی لڑائیاں اور اختلافات ہیں، جوکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں، اس اختلاف کو ختم کر نے کیلئے ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے، عوام کو بہترین سہولتیں دینے کیلئے بہتر گورننس کی ضرورت ہے، ملک میں سیاسی استحکام لانے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو گا کہ جب اہل سیاست آپس میں مل بیٹھیں گے،لیکن اہل سیات بضد ہیں کہ اکھٹے نہیں بیٹھیں گے
،اہل سیاست جب تک ملک کی سلامتی اور خوشحالی کی سوچ لے کر آگے نہیں چلیں گے ، ملک میں استحکام آئے گا نہ ہی آگے بڑھ پائے گا، بلکہ انارکی کی جانب ہی جائے گا۔یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اہل سیاست سب سے پہلے پا کستان کی باتیں بہت کرتے ہیں، لیکن اس پا کستان کیلئے ہی مل بیٹھنے کیلئے تیار ہیں نہ ہی محاذ آرائی چھوڑ رہے ہیں ، اہل سیاست کی ایک طرف محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے تو دوسری جانب اپنے استحقاق اور اپنے مفادات کیلئے بہت سے لوگوں کو گلے لگایا جارہا ہے اور اپنے ساتھ ملایا جارہا ہے
، گزشتہ روز اتحادی حکومت کی آئینی ترمیم پر کائوشیں سب دیکھتے رہے ہیں کہ کیسے پہلے اپنوں کو ماننے اور پھر دوسروں کا ساتھ ملانے کیلئے دوڑ دوپ کی جاتی رہی ہے ، اگر اس سے ادھی دوڑ دوپ عام عوام کیلئے کر لی جائے تو عوام کا بھلا ہو سکتا ہے ، عوام کے مسائل کا تدارک ہو سکتا ہے ، عوام کو رلیف مل سکتا ہے ، لیکن اس حکومت کی تر جیحات میں عوام ہیں نہ ہی عوام کیلئے کو ئی بھلائی ہے ،
یہ حکومت آئینی ترامیم سے لے کر قانون سازی تک عوام کے نام پر سب کچھ اپنے حصول مفاد کیلئے کررہی ہے اورہر ایک سے چھپا ئے بھی جارہی ہے ۔
اگر دیکھا جائے توایسی قانون سازی ضرور ہونی چاہیے، جوکہ ملک وعوام کے مفاد میں ہو، لیکن یہاں سب کچھ اپنے ہی مفاد میں ہورہا ہے ، اس لیے کابینہ ارکان سے بھی آئینی ترامیم کو چھپایا جا رہا ہے، اگر یہ آئینی ترامیم ملکی مفاد میں کی جا رہی ہیں تو انہیں چھپایا کیوں جا رہا ہے؟ یہ ترامیم عدلیہ کی آزادی کے لیے کی جارہی ہیں یا اس کو کنٹرول کرنے کے لیے کی جارہی ہیں؟اگر حکومت کی پھر تیوں کو دیکھا جائے
تو ایسا ہی لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالاضرور ہے ، اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت بتائے کہ کونسی ایسی مجبوری ہے کہ ایک طرف آئینی ترمیم کو چھپایا جارہا ہے تو دوسری جانب اتنی جلدی میں منظور کرانے کیلئے پوراروز لگایا جارہا ہے ، لیکن اس کے آڑے مولا نا فضل الرحمن آ رہے ہیں ، حکومت کی بہت ساری پیش کش کے باوجود مولانا مان رہے ہیںنہ ہی حمایت کرنے کیلئے تیار ہیںاور مولانا کی رضا مندی کے بغیر حکومت کی آئینی ترامیم کی منظوری کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
کوئی مانے نہ مانے ،حکومت بضد ہے کہ آئینی ترمیم لا کر ہی رہے گی ، جبکہ اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس نمبر پورے ہیں نہ ہی کوئی ان کا ساتھ دیے رہا ہے ، کیو نکہ آئینی ترامیم انتہائی خطر ناک ہیں ، اس میںاصلا حات کے نام پر قد غن لگائی جارہی ہیں ، یہ سپریم کورٹ کے اوپر ایک عدالت بنانا چاہ رہے ہیںاور چاہتے ہیں کہ اپنی من مانی وہاں سے کروائیں،لیکن ایسا کچھ ہونے نہیں دیا جائے گا،اس کے خلاف وکلا ء نے بھی احتجاج کر نے کا اعلان کر دیا ہے ،و کلا ء کا کہنا ہے کہ آزاد عدلیہ کے خلاف کسی آئینی پیکج کو قبول نہیں کیا جائے گا ، اس کے خلاف بھر پور مزحمت کی جائے گی ، جبکہ حکو متی تر جمان کا کہنا ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ سے آئینی ترامیم منظور نہ ہونا، حکومت کی ناکامی نہیں، ہفتہ دس دن بعد نمبر پورے ہو جائیں گے اور ایوان سے آئینی ترامیم منظور بھی کرالی جائیں گی۔
اگر ملک میں سب نے ہی قانونی نکات سے کھیلنے اور آئین سے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر انہیں کوئی روک سکتاہے نہ ہی ٹوک سکتا ہے ، کیو نکہ یہاں پر سارے ہی ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ،ایک دوسرے کی پشت پنا ہی کررہے ہیں ،اہل سیاست سے لے کر مقتدرہ تک کوئی آئین کے مطابق چل رہا ہے نہ ہی آئین و قانون کی پاسداری کررہا ہے ، اس کے بعد بھلائی کی توقع رکھنا دیوانے کی بڑ تو ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں، عدالت کے فیصلے مانے جارہے ہیں نہ ہی ان پر پوری طرح سے عمل درآمد ہورہا ہے
، گزشتہ روز ایک عدالتی فیصلے نے آئینی ترمیم کے حکومتی عزائم میں رکاوٹ ضرور ڈالی ، لیکن اس کے بعد سارا دن پارلیمنٹ میں رونق رہیں ، جوڑ توڑ جاری رہا ، اگر دیکھا جائے تو یہ سارا عمل بدنیتی پر مبنی ہے ، اور ایسے فیصلوں سے ملک کا کوئی بھلا ہو نے والا ہے نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ رویہ ملک کو انارکی کی طرف دھکیل رہا ہے اور کو احساس ہی نہیں کررہا ہے کہ آج ہم جس بحران کا سامنا کررہے ہیں،
اس نوعیت کا بحران ملکی تاریخ میں کبھی نہیں آیا ہے، اس کے حل کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے، اپنی حکمرانی جاری رکھنے کے لیے غیرقانونی ذرائع استعمال کرنے کے بجائے حکومت کو بڑھتی ہوئی سیاسی تفریق ختم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں، ورنہ سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور سارے خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔