55

آئی ایم ایف کا آخری پروگرام !

آئی ایم ایف کا آخری پروگرام !

اتحادی حکومت دعوئیدار ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے ، لیکن یہ کیسا استحکام آرہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قر ض پر قرض لینے کی ضرورت پڑرہی ہے اور اس قر ض کے بوجھ تلے عوام کو دبایا جارہا ہے ، عوام کا جینا عذاب کیا جارہا ہے ، عوام کو ہی بار بار قر بانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ، اس پر عوام سراپہ احتجاج ہیں

،لیکن حکمران آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا پیکج منطور ہو نے پر ایک دوسرے کو مبارک دیے رہے ہیں ،ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں منارہے ہیں ، کیااس بات کی مبارک باد دیے رہے ہیںاور اس چیز کی خو شی منارہے ہیںکہ ملک اور قوم پر کئی ارب ڈالر کا مزید قرضہ چڑھ گیا ہے اور اس کو اتارتے اتارتے صدیاں بیت جائیں گی۔
یہ اس ملک کے عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ اس کو گداگر حکمران ہی ملتے آ رہے ہیں ، اس ملک میں کوئی ایسا حکمران نہیں آیا ،جو کہ کشکول توڑ نے کی کوشش کرے اور خودانحصاری کو فروغ دیے ، یہاں پر کشکول توڑنے کے سارے ہی دعوئیدار آئی ایم ایف کے در پر حاضریاں ہی دیتے نظر آئے ہیں ، یہ آزمائے بھی اپنی پرانی روش پر گامزن ہیں اور قرض پیکج کی منطوری پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں

،وزیراعظم شہباز شریف کا آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر کے پیکیج کی منظوری پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہناہے کہ معاشی اصلاحات کا نفاذ تیزی سے جاری ہے‘ معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے ایسے ہی محنت جاری رکھیں گے، یہ انشااللہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو گا ۔
یہ بات بار ہا سنتے عوام کے کان پک گئے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو گا ،لیکن یہ آخری پروگرام کا تسلسل ختم ہو نے میں ہی نہیں آرہا ہے اور مزید قرضہ لینے سے ہر پاکستانی پر قرضے کا بوجھ کتنا بڑھ جائے گا ،اس کا اندازہ سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے مجموعی قرضے 68 ہزار 914 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں ، اس ملک کا ہر شہری 2 لاکھ 87 ہزار روپے کا مقروض ہے اور اس نئے پیکیج کے بعد فی کس قرضے کا حجم کہاں تک جا پہنچے گا

،اس بارے میں اندازہ لگاناکچھ زیادہ مشکل نہیںہے ، لیکن اس کی حکمران کوئی پرواہ کرر ہے ہیں نہ ہی اپنی روش بدل رہے ہیں ،ہر نئے قر ض کا بوجھ عوام پر ہی ڈال کر خود ایک بڑے پروٹوکول کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس ملک کے غریب عوام کے حکمران ساری سہولیات کے ساتھ اقتدار کے سارے مزے لوٹ رہے ہیں اور عوام بے چارے کھولے آسمان تلے روٹی روز گار کیلئے ترس رہے ہیں ، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، عوام کی دجوئی کرنے اور عوام کو رلیف دینے کے بجائے عوام پر ہی سارا بوجھ ڈالا جارہا ہے اورعوام کو ہی قر بانی دینے پر مجبور کیا جارہا ہے ، عوام کی ہی جیب کو نئے ٹیکس نظام کی آڑ میں خالی کیا جارہا ہے ، فائلر اور نان فائلر کے معاملات میں اُلجھا یا جارہا ہے

،ایک طرف حکومت کا کہنا ہے کہ ٹیکس ان لوگوں سے لیا جائے گا، جو کہ لاکھوں کماتے ہیں اور عوام کو ریلیف دیا جائے گا، لیکن اس کے برعکس ہی کیا جا رہا ہے کہ ٹیکس عام لوگوں پر اورتنخواہ دار طبقے پر نہ صرف عائد کیا جارہا ہے ، بلکہ ان لوگوں پر ہی مسلسل بڑھایا جارہا ہے ، جوکہ عوام کو ٹیکس نیٹ ورک میں آنے سے دور کررہا ہے اور مختلف خدشات وتحفظات کا شکار بھی بنائے جارہا ہے۔
اس ملک کے عوام باشعور ہیں اور حکومت کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں ، ھکومت کیا کچھ کررہی ہے اور کیا کچھ کر نا چاہتی ہے ، اس بارے بہت کچھ جانتے ہیں اور بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں ، عوام کے ذہنوں میں بہت سے ایسے اُٹھتے سوالات ہیں کہ جن کا جواب چاہتے ہیں،عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں جوٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے، وہ کہاں جاتا ہے اور اتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کے باوجود قرض پر قرض لینے کی ضرورت کیو ں پڑرہی ہے؟ جبکہ دوسرے ممالک ایک دو بار ہی قرض لے کر اپنے پائوں پر کھڑ ے ہو جاتے ہیں

، بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہو جاتے ہیں ، پا کستا ن عر صہ دراز سے قرض پر قرض لے رہا ہے ، لیکن قرض سے نجات حاصل کر پارہا ہے نہ ہی آگے بڑھ پارہا ہے، یہ سارا قرض کہاں جارہا ہے اور کہاں استعمال ہورہا ہے ، اگر ان معاملات اوران پیچیدگیوں کو کسی حدتک ہی کم کر لیا جائے توکشکول ٹوٹ سکتا ہے ، قرض سے چھٹکارہ مل سکتا ہے اور یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں