جمیل اطہر قاضی کا ’’مسئلہ قادیانیت ‘‘ پر انعام !
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہواہے، یہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقیدہ کا حامل ہے ،اس عقیدہ پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہوچکا ہے کہ اب آپﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور جو بھی آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کریگا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا او رجو کوئی بھی توحید ورسالت کے شعوری اقرار ویقین کے بعد کسی دوسرے کو اپنا نبی تسلیم کر ے گا، وہ بھی ملت اسلامیہ سے خارج ہوگا، یہ کوئی اُمت محمدیہ کا اپنا خود ساختہ فیصلہ نہیں ہے، بلکہ نبی کریم ﷺ کی زبان صادقہ کا فیصلہ ہے۔
یہ سب کچھ جا نتے ہوئے بھی مختلف ادوارا میں عقید ہ ختم نبوت پر کاری ضرب لگانے کوشش کی جاتی رہی ہے ، لیکن جب بھی کسی بدبخت نے ختمِ نبوت پر کاری ضرب لگانے کی مذموم کوشش کی ہے، مسلمانوں کے ہر مکاتب فکر نے علمائے کرام کی زیر قیادت ایسے فتنے کو اپنے انجام تک پہنچایاہے،برصغیر پاک و ہند میں بھی انگریز وںنے اپنی سازشوں اور گھنائونے منصوبوں کی تکمیل کے لیے جہاں دیگر بہت سے ہتھکنڈے استعمال کیے
، وہیں ایک بدبخت اور کاذب انسان مرزا غلام احمد قادیانی کوجھوٹا نبی بنانے کی بھی سازش کی ہے، مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت اور اس کی غیراسلامی اور غیراخلاقی سرگرمیوں کے خلاف، اُس کی زندگی میں اور بعد میں بھی ہر طبقہ ئے فکر کے لوگوں نے علمائے اسلام سے مل کر قادیانیت کو ہرمیدان میں شکست سے دوچار کیا ہے
،اس فتنے کی آگاہی اورسرکوبی میں جمیل اطہر قاضی جیسے علمی ، ادبی و صحافتی شخصیت بھی پیش پیش رہے ہیں۔جمیل اطہر قاضی کا ابتدائی عمر میں ہی قادیانیوں کے متعلق ذہن پختہ ہو چکا تھا کہ یہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ، انہوں نے 1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں جب کہ ان کی عمر صرف بارہ سال تھی ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں کے خلاف ایک نظم پڑھی ،اس کی پاداش میں گرفتار بھی ہوئے
، لیکن فتنہ قادیانیت کی سر کوبی کی جد جہد آج تک ماند نہیں پڑی ہے اور قادیانیت کے خلاف جہاد کا علم اپنی تحریروں سے بلند رکھے ہوئے ہیں،گزشتہ دنوں ان کی ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ کے عنوان سے تازہ کتاب مارکیٹ میں آئی ہے اور اس کتاب کو پڑھنے کا شرف ناچیز کو بھی حاصل ہوا ہے ،یہ کتاب خو بصورت سرورق کے ساتھ بڑی تقطیع کے 1080 صفحات پر مشتمل ہے، اس کتاب میں شامل سارے ہی مضامین اس لحاظ سے وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں کہ ان کے مطالعہ سے اْس صبر آزما جدوجہد کے خدوخال سامنے آتے ہیں،
جو کہ برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور مشائخ عظام نے مرزا غلام احمد قایانی کے دعویٰ نبوت کے خلاف نہایت استقامت سے جاری رکھی، حتیٰ کہ قادیانی 7 ستمبر1974 ء کو قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلہ کے تحت غیر مسلم قرار دیئے گئے اور اس فیصلہ کا اعلان اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میںاپنے خطاب کے دوران کیا،اس فیصلے کو قادیانی مان رہے ہیں نہ اس پر عمل پیراں ہیں ،لیکن اس سے جان چھڑا نہیں پارہے ہیں۔اس تاریخی فیصلے کو ریورس کر نے کی ہر دور اقتدار میں بہت کوشش کی جاتی رہی ہے ، لیکن پا کستانی عوام اور علمائے کرام ایسا کچھ بھی ہو نے نہیں دیے رہے ہیں
، اس کتاب میں قیام پاکستان سے قبل اور قیام پا کستان کے بعد قادیانیت کے خلاف آوازہ حق بلند کرنے والی دینی شخصیات کا نہ صرف تذکرہ ہے ،بلکہ اس میں 1953 اور 1974 ء کی عہد ساز تحریکوں کے احوال بھی شامل کئے گئے ہیں اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو میں گندھی کچھ بکھری تحریوں کو بھی سمویا گیا ہے، یہ مسٗلہ قادیانیت پر ایک ایسی کتاب ہے کہ جیسے پڑھنے کے بعد نہ صرف مسئلہ قادیانت کی حقیقی آگاہی حاصل ہوتی ہے ،بلکہ جذبہ عشق رسول ﷺ مزید بیدارہو نے لگتاہے
اور یہ نعرا منہ سے بلند ہو نے لگتا ہے کہ حرمت رسول ﷺ پر اپنی جان بھی قر بان ہے ،اس بارے جب اطہر جمیل قاضی سے در یافت کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ 1974 ء میںجب 33 سال کی عمر میں پہلی بار فریضہ حج ادا کرنے کا موقع ملا تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کے دوران دعا کے لئے یہ الفاظ زبان سے ادا ہوئے تھے کہ باری تعالیٰ، مرنے سے پہلے کوئی ایسا کام کرنے کی توفیق ضرور عطا فرمانا، جو کہ روزِ قیامت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا ذریعہ و وسیلہ بن جائے،
’’مسئلہ قادیانیت‘‘ میری اس دعا کی قبولیت کا ہی اشارہ ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسئلہ قادیانیت‘‘ معروف صحافی، ادیب، محقق اور کئی اخباروں کے چیف ایڈیٹر جناب جمیل اطہر قاضی کی مایہ ناز تالیف ہے، اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ایسا ہی لگتا ہے کہ اس کے لکھنے والے کا شمار محققین کے علاوہ علما کرام میں بھی کیا جاسکتا ہے،کیو نکہ اس کے مصنف نے جس طرح ابتدا سے لے کر آج تک ہونے والے مختلف واقعات، تحریکوں اوردیگر سرگرمیوں کو ایک خاص انداز میں پیش کیا ہے
،اگر اس کا کوئی غیر مسلم بھی غیر جانب دار ہوکر مطالعہ کرے تو اس فتنہ کے مختلف پہلوئوں سے آگاہ ہوتے ہوئے فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ ان لوگوں کا دین اسلام‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس عظیم تحقیقی مکا لے پر جمیل اطہر قاضی کو ڈاکٹریٹ کی سند ملنی چاہئے اور اس تصنیف کو تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانا چاہئے ، اس بڑے نام کے بڑے کام پر اعزاز و احترام ملنا چاہئے ، مگراس ملک کے ہر دوراقتدارکی تر جیحات کچھ الگ ہی رہی ہیں،
حکومت جمیل اطہرقاضی کو اتنے بڑے کام پرکسی بڑے اعزاز و ایوارڈ سے نواز ے نہ نوازے ، لیکن حبیب کا ئنات ﷺ اپنے دیدار سے ضرور نوازیں گے اور آخرت میں شفاعت بھی فر مائیں گے ،اس سے بڑا دنیا اور آخرت میں کیا انعام مل سکتا ہے، جو کہ جمیل اطہر قاضی نے ’’مسٗلہ قادیانیت‘‘ لکھ کر حاصل کر لیا ہے۔