18

تقدیر یا تدبیر پر ایمان و یقین

تقدیر یا تدبیر پر ایمان و یقین

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

اس جہاں میں،خالق کائینات کے خلقت کئے، ہزاروں لاکھوں چرند و پرند و درند و حشرات الارض، جہاں رزاق دو جہاں کے توزیع رزق نظام کےتحت، ظاہراً اپنی جہد مسلسل سے، دن بھر اپنی چلت پھرت و سعی پیہم، اپنے مقدر کا لکھا رزق متعین پالیتے ہیں، وہیں عموماً، انسانوں کے علاوہ کسی اور جاندار کو، اپنے مستقبل کے برے وقت کے لئے، رزق کے انبار محفوظ ذخیرہ کئے، ہم نہیں پاتے ہیں۔ پھر کیوں وباء یا قحط سالی ایام کے سوائے، ہم نسانوں کے علاوہ، کسی بھی جاندار کو، بھوک سے تڑپ مرتے ہم نہیں پاتے ہیں؟

مقدر کا لکھا رزق ہی ہر کسی کو ملا کرتا ہے لیکن قدرت کا قانون توضیع رزق، انسانی عقل و فہم تدبر و کوشش کامتقاضی بنادیا گیا ہے۔ جو اسے معاشرے میں عزت و توقیریت یا شرمندگی و رذالت عطا کیا کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ سے ہی کوئیں کے مینڈک والی سوچ کا حامل ہوا کرتا ہے اپنے اطراف والے ماحول کے حساب ہی سے، اپنی سوچ رکھتا پایا گیا ہے۔کشادگی رزق کو، آپنی صلاحیتوں کی وجہ اور تنگ دامانی رزق کو، مقدر کے لکھے کھاتے میں ڈالنے کا وطیرہ، اسے ورثے میں ملا ہوتا ہے۔ محنت و جستجو ہر اعتبار ضروری ہے، لیکن “خدا مہربان تو گدھا پہلوان” مثال مصداق، کسی کا کسل مندانہ نقل و حمل بھی، جہاں اسے کروڑوں عطا کرتا ہے

وہیں نصف سے زاید آبادی کی عرق ریزی، انہیں دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے مہیا کرواتی ہے۔اسی میں مقدر و تقدیر کا راز پنہاں ہوتا ہے۔محنت و مشقت اور علم و فہم، کشادگی رزق کے متقاضی ہوتے تو، عالم کے اکثر و بیشتر تونگر، ان پڑھ جاہل اور کسل مند نہ ہوتے! بہت سارے مفلوک الحال لوگوں کے درمیان، گنے

چنے ایک دو کو، اسعت رزق عطا کئے، وہ رب دوجہاں،کسی کےاحساس و درد انسانیت کو تو، کسی کے صبر کی آزمائش کررہا ہوتا ہےآم کے درخت کو آم ہی لگتے ہیں وہ بھی، بادشاہی اپوس آم کے درخت پر اعلی معیاری اپوس آم ہی کی پیداوار ہوتی ہے، سرد و گرم موسم کے تھپیڑے، آم کی فصل کو بگاڑ سکتے ہیں لیکن اقدار و اوصاف کو نہیں۔ہاں البتہ کسی بھی چیز کے اقدار و اوصاف ایک دوسرے میں منتقل کرنے یا کروانے والے ہم عقل و فہم و ادراک سے لبریز انسان، ترش آم درخت پر بھی،اپنے پیوند کاری فن سے،عمدہ آم کی نسل تیار کرواہی لیتے ہیں۔ انسان کتنا بھی ذکی و فہیم کیوں نہ ہو، وہ تخلیق کا اہل نہیں ہوتا

بلکہ تخلیق خداوندی کو، کچھ ادھر ادھر کرنے کی صلاحیت اپنے میں ضرور پالیتا ہے۔ قدرت کا دنیوی نظام معشیت و معاشرت ایک اوصول کے دائرے میں صدا روان دواں رہتا ہے لیکن وقت وقت سے، اپنے ہی اوصول سے انحراف، کچھ انہونی کئے، خالق دوجہاں، اپنے خالق و رزاق ہونے کو،ہم انسانوں پر واضح کرتے رہتے ہیں۔یہ ہم انسانوں کی کج روی کہ ہم بیگانہ و محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ ہم نے بیشتر اپنے اطراف دیکھا ہوگا

کہ معمولی مزدور کا بیٹا بھی توقعات سے کہیں زیادہ علم و عرفان حاصل کر لیتا ہے یا کہیں بڑے بڑے خاندانی تونگروں سے زیادہ دولت و ثروت کا مالک بھی بن جاتا ہے،یہی تو قدرت کے اٹھکھیلیاں ہیں جو مفلسوں میں، امید کی کرن جگائے، انہیں حصول رزق، محو و مصروف رکھتی ہیں۔رزق متعین سے پرے عیش و عشرت کے لئے، بے تحاشا رزق کا حصول،یا وقت کے حکمرانوں کا جبر، صدیوں سے حضرت انسان کو، ملک ملک ہجرت و سفر مائل کرتا رہتا ہے۔ کامیابی و ناکامی جانچنے کے معیار، اجمالی کیفیت،گو دیکھ کر ہی کیا جائے

تو، فی زمانہ خلیج کے رہگزار حصول معاش کے وسیع مواقع بدستور موجود ہیں،لیکن پہلے جس آسانی سے بہتات رزق دستیاب تھا اب اتنی ہی مشقت کرنی پڑتی ہے، اگر کوئی اپنے خالق و مالک، رزاق دوجہاں کی رضا و خوش نودی حاصل کرنےکامیاب رہتا ہے تو،بغیر محنت ذرا سی سعی، اسے خدا کے “کن فیکون” ہی کے سبب کامیاب تاجر بنا ہی دیتی ہے۔ ہم اہل نائطہ آل عرب یا آل حضارم تاجر پیشہ قوم، ازل میں رزاق دوجہاں پر توکل ہی کے سبب، عالم کے کونے کونے میں، جہاں کامیاب و سرخرو تھے، لیکن اب توکل علی اللہ جذبات فقدان ہی کی کمی کے باعث، حلال حرام تفکر سے ماورا،اپنی طرف سے سعی پیہم کئے،

وقتی طور بہتات رزق حصول کامیاب ہوتے تو لگتے ہیں لیکن سہل راہ آئی دولت سہل راہ ہی چلی جاتی ہے مثل مصداق، انکی آسان کمائی دولت، معاشرہ کے بگاڑ کاسبب بنتے ہوئے،بعد الموت وبال جان بھی بن جایا کرتی ہے۔ صالح معاشرہ کا قیام جتنا مشکل ہوتا ہے وہیں معاشرہ کا بگاڑ، حرام دولت آسانی سے کر دیا کرتی ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بدن پر لگی غلاظت صاف کرنے کے بجائے، مشک و عنبر کی خوشبو سے اسے چھپانے کی ناکام کوشش کی جائے جو ایک نہ ایک دن تو جگ ظاہر ہوہی جاتی ہے۔ساٹھ ستر سالہ دنیوی زندگی بمقابلہ، یا تو نسیم باد بہاران جنت، یا انتہائی گرم لؤمانند باد جہنم، بعد الموت قبر و برزخ والی ہزاروں سالہ زندگی سے انکار کی جرآت و جسارت ہم مسلمانوں میں کہاں؟ لیکن پھر بھی، کذب و افترا پروازی، دھوک دہی والی ڈنڈی مار، فن تجارت پر شادمانی کیوں؟

اور ایسی آسان و سہل غلط دولتمندوں کو، مسلم معاشرے میں، کی جانے والی تبریک و قدر شناسی ہی، عموماً اکثر معاشرے میں،ہم مسلمانوں کوغلط و حرام کمائی راہ پر ڈال دینے کا سبب بنتی ہے۔ حصول رزق ہر میدان کار زار، محنت و مشقت کا متقاضی ہوتا ہے۔کیا کسی کو دھوکا دینے، جعلسازی کرنے میں عقل و فہم و ادراک، محنت نہیں لگتی ہے؟ تو پھر وہی محنت و لگن کو رزق حلال حصول کے لئے، کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ساٹھ ستر سالہ دنیوی زندگی،ایسے تیسے ویسے بھی کٹ جائیگی لیکن، چند سالہ دنیوی زندگی عیش و عشرت جھوٹی شان دکھاوے کے لئے، بعد الموت ہزاروں سالہ لازم و ملزوم قبر و برزخ والی زندگی کو داؤ پر کیوں لگایا جائے؟

مندرجہ ذیل مملکت سعودیہ میں کامیاب تجارتی سفر کی کہانی، مقامی اہل نائطہ کئی ایک کامیاب تجارباوجود، ہمیں یہاں ذکر کرنا ضروری اس لئے لگتا ہے کہ اپنے ہم عصر مسلم بھائیوں کو، تجارتی کامیابی دلوانے کا وصف خاص جو لکھنوی مزاج والے سعد انور کی پہچان ہے،اس کے اپنے سرمایہ کار کمپنی کے ذریعے، مقامی چھوٹے اور درمیانے درجے کے تجارتی اداروں (SMEs) کی سرپرستی اور فنڈنگ ​​کے ساتھ ساتھ تعلیم و آگہی دینے کا جذبہ ہے جو غالبا ہم اہل نائطہ تجار میں مفقود ہمیں لگتا ہے،

دس بیس سال قبل ‘بلاد تجارت عالم’ دوبئی میں منعقدہ ایک بین الجماعتی کانفرنس میں، اہل تدبر و تفکر، صاحب زر ارباب و قائدان قوم نائطہ کو مخاطب کر،ہم نے، ان سے اس وقت علی الاعلان استدعا کی تھی، کہ نونہالان قوم کے ہاتھ رہگزار خلیج عرب، پیٹرو ڈالر من وسلوی بہتات زر کو، منصوبہ بند اشتراکی سرمایہ کاری میں لگاتے ہوئے، تجار مشہور قوم اہل نائطہ کو، تجار قوم گجرات مانند، صنعت کاری راہ پر گامزن کیا جائے، تو اپنے تجارتی فن سے عالم میں مشہور قوم اہل نائطہ کو، بحسن و خوبی صنعتی قوم میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

بصورت دیگر، کہیں سیمنٹ، تمباکو، تربوز تو کہیں سنہرے کبوتر بازی شوق مختلف اسکینڈلز میں، وہی قوم کے ہاتھوں میں کھیلتی دولت نہ صرف ضائع و برباد ہوجائیگی بلکہ اغیار کے سامنے صدیوں قبل والا قومی اقدار و مرتبہ بھی داغدار و بدنام ہوگا، اور اسوقت قائد قوم المحترم خلیل صاحب کی دسترس میں ایسے بے شمار وسائل موجود تھے، جنہیں استعمال کر،اہل نائطہ قوم کو، صنعتی راہ پر آسانی کے ساتھ گامزن کیا جاسکتا تھا۔اور اہل عرب اہل نائطہ قوم کا کامیابی کے پیچھے دوڑتا یہ وصف خاص،جہاں انہیں کبوتروں کی طرح ہمہ وقت محو پرواز رکھ سکتا ہے، وہیں مناسب آگہی رہنمائی اچھے صنعت کار بھی بنا سکتا ہے۔

کل روز محشر اللہ اپنے بندوں سے، اسے عطا علم و ہنر مطابق ہی جب سوال و جواب ہوگا تب ہم بجا یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے متعدد موقعوں پر، ارباب قوم کو مکرر، اپنے لکھے مقالات و مضامین کے ذریعہ یہ آگہی دلانے کی ناکام سعی کی تھی کہ قوم اہل نائطہ کو کامیاب صنعتکار قوم بھی جہاں بنایا جاسکتا تھا وہیں شہر کے بیچوں بیچ دوڑتی شاہراہ 17 پر فلائی اوؤر تعمیر کروا، اس شاہراہ 17 کے منفی اثرات سے، قوم کو آمان بھی دلائی جاسکتی تھی 2016 مجلس اصلاح و تنظیم صد سالہ تقریبات اختتامی جلسہ عام میں، اس وقت کے اور اب والے کانگرئسی وزیر اعلی سدارامیا کے کانوں میں، وقفہ طعام فلائی اوؤر کی احقر کی طرف سے ڈالی ہوئی بات پر،ہزاروں کے مجمع میں چیف منسٹر سدی رامیا کا فلائی اوؤر تعمیر کرنے کا وعدہ اعلان، ہزاروں سامعین کو اب بھی یاد ہوگا یا اس وقت محفوظ عکس بن یا صوتی تقریر میں اب بھی سنا جاسکتا ہے۔ وما التوفیق الا باللہ

سعد انور، ایک 26 سالہ ہندوستانی کاروباری، نے 2024 میں سعودی عرب میں اپنی پریمیم ریذیڈنسی حاصل کی، جس سے غیر ملکیوں کے لیے اہم مواقع کے دروازے کھل گئے۔
یہ رہائش سعد جیسے افراد کو مقامی کفیل کی ضرورت کے بغیر کام کرنے، کاروبار کرنے اور جائیداد میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

سعد کا سفر لچک اور عزائم سے نشان زد ہے۔ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، وہ 2003 میں اپنے خاندان کے ساتھ جدہ چلے گئے، اور تیزی سے اپنے نئے ماحول میں ڈھل گئے۔

اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، اس نے 18 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، مختلف کرداروں کے ذریعے آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک کہ اس نے 2017 میں اپنا کاروباری سفر شروع کیا۔

2022 تک، اس نے سینیار عربین ٹریڈنگ کو مکمل طور پر حاصل کر لیا، جو کہ ایک کنٹریکٹنگ اور افرادی قوت کی مدد کرنے والی کمپنی ہے، اور اب اس کے سی ای او کے طور پر کام کر رہا ہے۔

اپنی پریمیم ریذیڈنسی حاصل کرنے کے بعد سے، سعد نے سعودی عرب کے کاروباری شعبے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے متعدد منصوبوں میں فعال طور پر سرمایہ کاری اور ان کا انتظام کیا ہے۔ اس کے کاروباری جذبے نے اسے کئی غیر ملکی کمپنیوں اور بین الاقوامی ٹریڈ مارکس کو سعودی مارکیٹ میں متعارف کرانے کے قابل بنایا ہے، جس سے مملکت کے ساتھ عالمی کاروبار کو مؤثر طریقے سے ملایا گیا ہے۔

کاروبار کے حامی ماحول کو فروغ دینے کے لیے سعودی حکومت کی کوششوں پر اظہار تشکر کرتے ہوئے، سعد نے نوٹ کیا، “سرمایہ کاروں کی مدد، اسٹارٹ اپ کی حوصلہ افزائی، اور ترقی کے لیے نئے شعبے کھولنے کے لیے حکومت کے اقدامات میری کامیابی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔”

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح ویژن 2030 نے تاجروں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے قیمتی مواقع پیدا کیے ہیں، جس سے سعودی عرب کو ایک متحرک، آگے کی سوچ رکھنے والے کاروباری مرکز میں تبدیل کیا گیا ہے۔

اپنے کاروباری مشاغل سے ہٹ کر، سعد انسان دوستی کے لیے وقف ہے۔ اپنی سرمایہ کاری کمپنی کے ذریعے، وہ مقامی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کی سرپرستی اور فنڈنگ ​​کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور کمیونٹی ویلفیئر میں سماجی اقدامات میں شراکت کے ذریعے مدد کرتا ہے۔

آگے دیکھتے ہوئے، سعد سعودی عرب اور بین الاقوامی سطح پر اپنی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کا انتظام کرنے کے لیے ایک ہولڈنگ کمپنی قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا وژن خطے میں نوجوان، مقصد سے چلنے والی انٹرپرینیورشپ کی مثال دیتے ہوئے، اپنی انسان دوستی کی کوششوں کو جاری رکھنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں