20

اسرائیلی ہولوکاسٹ کب ختم ہو گا؟

اسرائیلی ہولوکاسٹ کب ختم ہو گا؟

اسرائیلی جارحیت اپنے عروج پر ہے ، غزہ پر اسرائیلی حملوں کو تیرہ ماہ سے زائد وقت ہو چکا ہے ،اسرائیلی حملوں میں اب تک 43 ہزار 600 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں ،جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد ہے ،اس کے علاوہ ملبے تلے دب کر جاں بحق ہونے والے ہزاروں افرادکی تعداد کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکا ہے، دوسری جانب لبنان کے دارالحکومت بیروت سمیت کئی علاقے بھی اسرائیلی حملوں کی زد میں ہیں اور لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق صہیونی افواج کے حملوں میں روزانہ تیس سے زائد شہری شہید ہورہے ہیں،

اسرائیلی حملوں میں غزہ مکمل تباہ، جبکہ بیروت کا تعمیراتی ڈھانچہ بڑی حد تک زمین بوس ہو چکا ہے تو اسلامی دنیا کو ایک بار پھر اسلامی سر براہی اجلاس بلانے کا خیال آیا ہے، اس اسلامی سربراہی اجلاس میں اہلِ فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو ان جرائم سے روکا جائے اور جنگ بندی کیلئے دبائو ڈالا جائے، لیکن کیا عالمی برادری اسرائیل پر دبائو ڈال پائے گی اور یہ جنگ بند کرواپائے گی ؟
اگر دیکھا جائے توگزشتہ تیرہ ماہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی عدالتِ انصاف سمیت سبھی عالمی فورمز نے اسرائیلی بربریت کو تسلیم کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے ، لیکن اس ضمن میں کوئی عملی اقدام نہیںاُٹھا یاگیا ،اب عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں پچاس سے زائد ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ سطحی نمائندوں نے مشترکہ مؤقف اپناتے ہوئے اسرائیل کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے اور آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو دنیا کے امن کیلئے ناگزیر قرار دیا ہے

، ایک سال قبل بھی غزہ کی صورتحال پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا غیر معمولی مشترکہ سربراہی اجلاس بلایا گیا تھا، اس میں اسرائیل کی مذمت‘ فلسطین کی حمایت اور جنگ بندی کی کوششوں کا عزم ظاہر کیا گیا تھا، مگر اس حوالے سے سارا سال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی، تاہم اس بار دیکھنا ہو گا کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ میں رکنیت ختم کرنے‘ فلسطینی عوام کو خوراک اور طبی امداد کی بہم رسائی اور لبنان کی سالمیت اور خطے کو جنگ کے خطرات سے بچانے سمیت کانفرنس کے اعلامیے کے نفاذ کیلئے کیا کوئی قدم اٹھایا جاتاہے؟
گزشتہ سال اکتوبر سے آج تک دکھا جائے تو غزہ پر جاری اسرائیلی بربریت کے جواب میں محض اظہارِمذمت ہی کیا جاتا رہا ہے، اس حوالے سے اقوامِ متحدہ‘ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور دیگر طبقہ ہائے فکر کے لوگ ہی نہیں‘ مسلم دنیا اور او آئی سی جیسے فورمز بھی غزہ المیے کے باب میں نشستن‘ گفتن اور برخاستن سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں،

اب تو قطرنے بھی ، جو کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بندی کے لیے کوشاں تھا‘ حماس اور اسرائیل کے مابین ثالثی کی کوششیں روکنے کا اعلان کر دیا ہے، ایسے میں جنگ بندی اور غزہ کے زخمیوں کے علاج معالجے اور انہیں غذا پہنچانے کی کاوشیں کیونکر بارآور ہوں گی؟ اسلامی دنیا اور عالمی برادری کو مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کو اب علامتی یا رسمی بیانیے سے آگے بڑھانے اور مسلم ورلڈ کو بلخصوص اپنی اقتصادی قوت کے استعمال کے متفقہ مؤقف کے ساتھ سامنے آنے کی ضرورت ہے،اس میں مزید تاخیراسرائیل کی جارحیت میں مزید اضافہ کر ے گی اور یہ جنگ مشرقِ وسطیٰ سے دنیا بھر میں پھیلتی چلی جائے گی ۔
اب وقت آگیا ہے کہ سر براہی اجلاس پر اجلاس بلا نے اور ان اجلاسوں میںزبانی کلامی باتوں سے آگے بڑھا جائے ،تمام مسلم حکمران متحد ہو کر فلسطینیوں کی بحالی و آزادی کیلئے عملی اقدامات کریںاوردنیائے عالم کو باور کر ائیں کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اوراس نے اُمت مسلمہ کے خلاف جو ہلو لو کاسٹ شروع کررکھاہے ،

اس کا خاتمہ کب ہو گا؟ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے آج تک کوئی بھی مسلم مقبوضہ علاقہ آزاد کرایانہ ہی انسانی حقوق کا تحفظ دیے پائے ہیں ،اس لیے تمام اسلامی ممالک کو ہی متحد ہو کر کوئی متفقہ لائحہ عمل مر تب کر نا ہو گا ، اقوام متحدہ جیسے بے اختیار ادارے کا جہاں مکمل بائیکاٹ کرنا ہو گا، وہیں او آئی سی کو بھی عملی طور پر متحرک کرنے کے ساتھ مضبوط بناہو گااور دنیا کو بتانا ہو گا کہ ہم ہر مظلوم کے ساتھ متحد ہو کر کھڑے ہیں اور بے لگام ظالم کو لگام ڈال سکتے ہیں ،اگر اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکا نہ گیا تو ایک کے بعد ایک کی باری آئے گی ، اسرائیل کی بر بریت سے کوئی بچ پائے گانہ ہی اس کے حواریوں کی سازشوں کے جال سے نکل پائے گا !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں