آمر یت سے کمزور جمہوریت ہی بہتر ہے!
ملک میں ابھی احتجاج ہی رک نہیں پایا ہے کہ سول نافرمانی کی باتیں ہو نے لگی ہیں ،تحریک انصاف ایک طرف مذاکرات کی باتیں کررہی ہے تو دوسری جانب سول نافرمانی کی تحریک چلا نے کا عندیہ بھی دیے رہی ہے ،اس پر وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ سول نافرمانی تحریک سے بڑی دشمنی کیا ہو سکتی ہے،
جبکہ با نی تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس نا جائز حکو مت سے جان چھڑانے کیلئے ہر حر بہ آزمایا جائے گا اور عوام کوآزادانہ حق رائے دہی دلایا جائے گا ، لیکن اس سول فر مانی تحریک کے بل بوتے پر کچھ بد لتا دکھائی دیے رہا ہے نہ ہی عوام کو کچھ ملتا دکھائی دیے رہا ہے ۔اگر دیکھا جائے
تو با نی تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی تحریک چلا نے کا عندیہ دے دیا ہے ، لیکن ہماری ملکی تاریخ میں سول نافرمانی کی کوئی تحریک کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہے، 1970ء میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان کی انتخابی نتائج کے تنازع پر حکومت کے خلاف سول نافرمانی تحریک کی کال ہو یا 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی سول نافرمانی کی تحریک‘ ان کے نتائج انتہائی منفی نکلے تھے، خود پی ٹی آئی بھی 2014ء میں سول نافرمانی تحریک کی ناکامی کا ذائقہ چکھ چکی ہے،
کیا ایک بار پھر دوبارہ وہی ذائقہ چکھناچاہتی ہے ؟ایک بار ناکا می کے بعد دوبارہ وہی کچھ سو چ سمجھ کر دہرانا چاہئے ، لیکن یہاں پر اپنی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھنے کا رواج نہیں ،بلکہ دہرانے کا رواج ہے ،اس لیے دہرایا جارہا ہے تو خیبر پختون خوا میںجہاں پی ٹی آئی برسر اقتدار ہے‘ کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی؟ کیا لوگوں کو یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی سے منع کیا جائے گا؟ اس پر ناقدین کا خیال ہے کہ احتجاجی کوششیں ناکام ہونے کے بعد اب سول نافرمانی تحریک کا شوشہ محض اپنے حامیوں اور کارکنوں کو جوڑے رکھنے کا ایک بہانہ ہے، ورنہ اس وقت جو حالات بنے ہوئے ہیں، اس میں سول نا فرمانی کی تحریک اٹھائی جاسکتی ہے نہ ہی اتنی آسانی سے کا میاب بنائی جاسکتی ہے ۔
اس کا تحر یک انصاف قیادت کو بھی بخو بی اندازہ ہے،اس لیے ہی پارٹی میںسول نافر مانی تحر یک پراتفاق نظر نہیں آرہا ہے اورخیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو کہنا پڑا ہے کہ سول نافرمانی تحریک چلا نے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے‘ صوبائی کابینہ نے بھی سول نافرمانی کی مخالفت کر رہی ہے، پی ٹی آئی کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ اگر وہ حکومت میں ہوتی اور اپوزیشن جماعت سول نافرمانی تحریک کی کال دیتی تو اس کا کیا ردِعمل ہونا تھا ، سیاسی احتجاجوں میں حکومت اور ریاست کا فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے
اور کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے کہ جس کے مضمرات ریاست کو بھگتنا پڑیں،پی ٹی آئی کے ذمہ داران کو اب سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے ،اپنی سیاسی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے اور احتجاج کے بجائے مذاکرات کی جا نب آنا چاہئے،حکو مت کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ کسی مقبول سیاسی جماعت کو دیوار سے لگا کر حالات کو معمول پر نہیں لایا جا سکتا ‘ یہ معاملہ لچک اور نرمی ہی سے حل ہو سکتا ہے۔
ہمیںمن حیث القوم ان عوامل پر قابو پانا ہوگا ،جوکہ معاشی وسماجی ترقی کی راہ میں حائل ہورہے ہیں ،ہر ریاست کو اپنے قومی سفر میں نشیب و فراز کا سامنا تو کرناہی پڑتا ہے، مگر وہی قوم آگے بڑھ سکتی ہے، جو کہ اپنے تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی سعی کرتی ہے، اگر کل میثاق جمہوریت ہو سکتا ہے
تو آ ج کیوں نہیں ہو سکتا ہے ،اگر اُس جذبے کے تحت ہی مل کر بیٹھا جائے اور مذاکرات کو اتمامِ حجت نہیں، بلکہ سیاسی جمود کو توڑنے کی واحد قابلِ عمل راہ سمجھا جائے تو سارے ہی الجھے معاملات سلجھ سکتے ہیں اور معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں،یہ حالات کا بھی تقاضا ہے کہ اب سیاست میں ایک ایسے نئے دور کا آغاز کیا جانا چاہئے
کہ جس میں ملکی بقا اور سیاسی و جمہوری استحکام کو اولیت حاصل ہو، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر جمہوریت رہے گی نہ ہی جمہور کی آواز سنائی دیے گی ، بلکہ آمریت آجائے گی ،اس لیے ایک کمزور جمہوریت کو ہی چلنے دیا جائے ، کیو نکہ ایک کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے ۔