جینا بھی عذاب 16

قانون کی حکمرانی کے تقاضے

قانون کی حکمرانی کے تقاضے

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
بلاشبہ پاکستان کے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزنے قیام ِ عمل کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیںیہ قربانیاں تاریخ کا ناقابل ِ فراموش باب ہے ان قربانیوںکو کوئی جھٹلانابھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتا۔ عوام جب اپنے گھروںکے نرم گرم بستروںپر آرام کررہے ہوتے ہیں تو ہمارے فوجی جوان سرحدوںکی حفاظت کیلئے سینہ سپرہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ کرحالات کا مقابلہ کرتے ہیں اسی طرح پولیس کے جوان بھی عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے اپنے فرائض انجام دینے کا فریضہ انجام دیتے ہیں

یقینا یہ بڑا مقدس کام ہے عام آدمی کے لئے قانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکی خدمات قابل ِ تحسین ہیں۔عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے حکومت نے پولیس میں کئی محکمے بنارکھے ہیں جن میں زیادہ تراہلکاروںکی کاکردگی مثالی ہے یہی وجہ ہے کہ اب تلک بہت سے پولیس افسراور سپاہی اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے وطن اور اہلیان ِ وطن پر قربان ہوگئے یقینا یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں

عوام ان کو ہمیشہ خراج ِ تحسین پیش کرتی رہے گی کیونکہ یہ قر بانیاں وطن پر قربان ہونے والوںکی یاددلاتی ہیں۔یہاںایک سوال یہ پیدا ہوتاہے ان بیش قیمت قربانیوںکے باوجود وطن عزیزمیں ابھی تک جرائم کا قلع قمع نہیںکیاجا سکا یا جس طرح یورپین اور خلیجی ممالک میں امن و امان کی صورت ِ حال کومثالی کہاجاتاہے ایسا پاکستان میں نہیں ہے اس کاایک مطلب صاف صاف یہ ہے کہ جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی

مثالی امن و امان کاخواب پورانہیں ہو سکتا اور جب تک’’ قانون سب کیلئے‘‘نافذنہیں ہوتا حکومت جتنے بھی پولیس میں نئے محکمے یا فورسز تشکیل دے دے بات نہیں بنے گی اس لئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرناہوںگے پولیس کے تمام اداروں اور محکموں میں اختیارات سے تجاوزکرنے والوںکے خلاف سخت ایکشن لیناہوگاکیونکہ اختیارات سے تجاوزکرنے کے اثرات انتہائی بھیانک مرتب ہوتے ہیں اسے کرپشن کی سب سے خوفناک صورت بھی کہاجا سکتاہے کئی مرتبہ ناکے لگا کر پولیس اہلکار گاڑیوںکے کاغذات چیک کرتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے کی جرأت نہیںکرسکتا حضور آپ ایسا کیونکرکررہے ہیں؟

۔اس ملک میں ٹریفک اہلکار ون وے کی خلاف ورزی کرے یا ہیلمٹ پہنے نہ پہنے اس کی مرضی پر منحصر ہے ۔ محافظ پولیس بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے ان سے بھی عام آدمی کو بہت سی شکایات ہیں اب تو یہ بھی اطلاعات ہیں مضافاتی علاقوں میں ڈولفن اہلکار، محافظ ،اور عام پولیس ملازمین نیم تاریکی میں ناکے لگا تے ہیں

نوجوان ان کا خاص ہدف ہیں اب کیاکہا سکتاہے ان کو حکومت کی طرف سے کوئی خاص ٹاسک دیا گیاہے یا وہ اختیارات سے تجاوز کرکے اپنے طورپر ایسا کررہے ہیں دونوںصورتوںمیں انسانی وشہری حقوق کے خلاف ورزی ہے اس طرح عام شہریوںکو ہراساںکیاجارہاہے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب ، متعلقہ تھانوںکو اس کا نوٹس لیناچاہیے۔ جب بھی کوئی نئی فورس قائم ہوتی ہے اس سے لوگوںکا متاثرہونا یقینی ہے اہلکار ایفی شنسی دکھانے کے چکرمیں عوام کا ناقطہ بندکردینے سے بھی گریزنہیں کرتے۔ عام آدمی تو پہلے ہی حالات کی چکی میں پس رہاہے ،پڑھے لکھے نوجوان روزگارنہ ہونے سے مایوسی کاشکارہیں،مہنگائی،غربت نے عوام کی مت ماررکھی ہے اوپر سے ناکے لگاکر شہریوںکو ہراساں کرناکہاںکانصاف ہے؟۔ اور تو اور ٹریفک پولیس کو شہریوں کو ہتھ کڑی لگانے کا اختیار ملنا بھی انتہائی خوفناک ہیں موٹرسائیکل سوار اور رکشہ ڈرائیور وںکو ٹریفک اہلکار پہلے ہی تیسری درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں یہ طرز ِ عمل انتہائی برے اثرات مرتب کررہاہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ای مرکز اور خدمت سینٹرز بنانے سے عوام کی مشکلات کافی حد تک کم ہوئی ہیں ایسے ہی مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ ہمیشہ کہاجاتاہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اس کا بڑا سبب پولیس کا رویہ خیال کیاجاتاہے شایدوہ خودکو لوگوںسے برتر سمجھتے ہیں اسی لئے پبلک سرونٹ کا تصور پاکستان میں بڑاخوفناک بن گیاہے یعنی اختیارات رکھنے والا جو چاہے کر سکتاہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں آج ملک کے حالات کے پیش ِ نظرضروری ہے کہ عوام اورقانون نافذکرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسزکے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے تمام اداروںکوپابندکیا جائے کہ وہ شہریوںکی سیلف ریسپکٹ کو ہرحال میں مقدم رکھیں گے عوام کو یہ جاننے کاحق ہے کہ پولیس کے جتنے بھی محکمے ،ادارے یا محافظ، ایلیٹ، ڈولفن فورسز بنائی گئی ہیں ان کے قیام کے اغراض و مقاصدکیاہیں؟

ان کا دائرہ ٔ کار اور اختیارات ،ضرورت و اہمیت کیاہے ؟ اس کیلئے اخبارات میں مفید معلومات دی جائیں اور ایک سے متعلق ایک ویب سائٹ بھی بنادی جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔پاکستان کے شہری اپنے وطن سے شدیدمحبت کرتے ہیں اور خاص طور پرجن اداروںتعلق پبلک ڈیلنگ سے ان کی تربیت اس اندازسے کی جانی ناگزیرہے کہ وہ انسان کو انسان سمجھیں جب تک بلا امتیاز سب کااحتساب یقینی نہیں بنایا جاتا بہتری کی امید بھی عبث ہے پاکستان کے تمام شہریوں،اداروں اور سرکاری و غیرسرکاری افسران و اہلکاروںکو آئین اور قانون کا پابندکیاجائے اپنے اختیارات سے تجاوزکرنے والوںسے بازپرس اور خوداحتسابی کا طریقہ ٔ کار وضح کیاجائے جب سب کو احتساب کا خوف ہوگا تو وہ کبھی اپنے اختیارات سے تجاوزنہیںکرسکتا ۔موجودہ حکومت نے اس ضمن میں عوام سے وعدے بھی کررکھے ہیں

ان کی تکمیل بھی ضروری ہے کوئی حکومت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تلک وہ عوام کیلئے آسانیاں پیدانہیں کرتی۔پولیس سے متعلق عوامی شکایات اور ان کے ازالہ کیلئے بھی حکومتی ترجیحات کا تعین کیا جائے ،پولیس کو عوام پر اپنا اعتمادبحال کرناہوگا مجرموں اور عام آدمی کے درمیان فرق پولیس کا طرہ امتیازہونا چاہیے۔ہر حکومت نے پولیس کلچرکی تبدیلی کے بے شمار وعدے کئے ۔ حکمرانوںنے ہمیشہ پولیس کو سیاسی دبائو سے آزاد کرکے عوامی امنگوںکے مطابق ڈھالنے کااعلان کیاہے ا س پر سنجیدگی سے عمل کیا جانا ناگزیرہے کیونکہ حالات متقاضی ہیں جرائم کے خاتمہ اور عام آدمی کی جان ومال کے تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں یہ بات طے ہے کہ جب تک پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم نہیں ہوں گے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں