مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ ! 12

بلیم گیم کے کلچر سے نکلنا ہو گا !

بلیم گیم کے کلچر سے نکلنا ہو گا !

حکو مت اور اپوزیشن کے در میان رسہ کشی بد ستور جاری ہے ،حکومت نے آٹھ فروری یوم تعمیر و ترقی کے عنوان سے منایا ،جبکہ حزبِ اختلاف نے صوابی میں ایک کا میاب احتجاجی جلسہ منعقد کیاہے،اگر حکومت کے پہلے سال کا جائزہ لیا جائے تو معاشی حوالے سے صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے، خاص طور پر افراطِ زر اور شرح سود میں کمی قابلِ ذکر ہے ،ڈیفالٹ کا خطرہ بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے، تاہم معاشی ترقی کے ثبوت کے طور پر یہ سب کچھ کافی نہیں ہے، کیو نکہ کم آمدنی والے لو گوںکیلئے صورتحال باعث اطمینان نہیں ،وہ آج بھی بدستور مہنگائی ،بے روز گاری اور قوتِ خرید کی کمی کی مشکلات سے دوچار ہیں۔
اگر دیکھا جائے توافراطِ زر کے اعدادوشمار میں کمی اپنی جگہ، مگر یہاں اصل مسئلہ قوتِ خرید کی کمی کا ہے ،جبکہ بے روزگاری میں مزید اضافہ ہی ہو تا جارہا ہے ،ایک طرف بڑھتی مہنگائی ہے تو دوسری جانب بے روز گاری ہے،اس میں معاشی ترقی کیسے ہو پائے گی، پائیدار معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے ثمرات عام آدمی کی زندگی پر بھی نظر آئیں‘ اور اس کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ،اس کیلئے روزگار کے مواقع میں اضافہ پہلا عملی قدم ہونا چاہیے، جو کہ نئی سرمایہ کاری اور صنعت کاری پر ہی منحصر ہے، لیکن یہ سب کچھ سیاسی استحکام اور قیام امن کے ساتھ ہی ممکن ہو پائے گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی ہم آہنگی کے بغیر معاشی اور سماجی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گاتو پھر سیاسی استحکام لانا چاہئے ،اس میں حکومت کا کردار قابل ذکر ہے ، لیکن حکو مت سیاسی استحکام لانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پارہی ہے ، اگر ملک میں سیاسی استحکام لا نا ہے تو اس کے لیے اہل سیاست کو اپنے ماضی سے جان چھڑانا اور نئی روایت قائم کرنا ہو گی، اس کے ساتھ یہ بات پلے باندھنا ہو گی کہ سیاسی دائو پیچ اور فریب کی حکمت عملی نہیں چلے گی ۔، یہ انتقامی حربے ترقی پذیر ممالک کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی حکومتوں کا عدم استحکام دوسرے لفظوں میں جمہوری نظام میں جان نہ پڑنے کی اصل وجہ یہ ہی ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں نے ذاتی مفاد اور انا کو قومی مفاد پر ترجیح دی اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں میں جس قسم کا اعتماد قائم ہونا چاہیے تھا ،وہ نہیں ہو سکاہے ، اس ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے ،اس کا پہلا سال سمت درست کرنے اور اہداف کا تعین کرنے میں ہی گزرجاتا ہے،

اس دوران حکومت نے جو کچھ حاصل کیا اس سے کامیابی یا ناکامی کا تعین نہیں کیا جاسکتا ہے ، موجودہ حکو مت بھی ایسا ہی کچھ کررہی ہے ، لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ موجودہ حکومت کس حد تک کامیاب رہی ہے۔
یہ بات کوئی ما نے نہ ما نے ،مگریہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکو مت عوام مخالف فیصلے کے ذریعے لائی گئی ہے ،جبکہ اپوزیشن کو عوام کی حمایت حاصل ہے ،تاہم اب دونوں ہی کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ پارلیمان کو اس کے بہترین مقاصد میں استعمال کریں اور جمہوری ساکھ کو مستحکم کریں، اس وقت داخلی سلامتی اور پائیدار امن کا قیام ہی سیاسی فریقین کی ترجیح ہونی چاہیے اور انہیں اس کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے ، بلکہ ایک دوسرے کو گرانے اورراستے سے ہٹا نے کی کوشش ہو رہی ہے ، اس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھیں گے ،جو کہ کسی ایک کے مفاد میں بہتر نہیں ہے ،اس کے باوجود مر یں گے یا مر جائیں گے کی ہی راہ پر گا مزن ہیں۔
اگر ملک کی ترقی اور سسٹم کا استحکام ہماری قومی سیاست کا مطمع نظر ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو بلیم گیم کے کلچر سے باہر نکل کر ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، اپوزیشن کیلئے سیاست اور اقتدار کے راستے تبھی نکلیں گے ،جب کہ وہ سسٹم کے ساتھ اپنا ربط بڑھائے اور مضبوط بنائے گی، اگر اپوزیشن فارم 47 کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا مینڈیٹ قبول نہ کرنے پر مْصر رہے گی تو پھر حکمران جماعتوں کی قیادتیں بھی پی ٹی آئی کو حاصل ہونے والے
سابقہ مینڈیٹ کو اسی بنیاد پر چیلنج کرتی نظر آئیں گی، اس طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام کم ہو نے کے بجائے بڑھے گا اور اقتدار کی بوٹی ماضی کی طرح سیاسی قیادتوں کے ہاتھ سے کسی وقت بھی نکل جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں