20

اس جمہوریت میں جمہور ہی نہیں !

اس جمہوریت میں جمہور ہی نہیں !

اس ملک میں عوام انتخابات کا انتظار کرتے ہیں کہ اپنی رائے کا اظہار کر یں گے اور اپنی مر ضی کے حکمران لائیں گے ،مگر ایسا کبھی نہیں ہو پایاہے ، ہر بار انتخابات ہو تے ہیں اور ہر بار ہی عوام کبھی دھاندلی تو کبھی فارم پینتالیس اور فارم سینتالیس میں تقسیم ہوکر رہ جاتے ہیں، اکثریت کے پاس فارم پینتالیس اور اقلیت کے پاس فارم سینتالیس ہوتے ہیں، مگر وہ اقتدار میں آجاتے ہیں، جمہوریت کہتی ہے

کہ اکثریت کا فیصلہ مانا جائے گا اور وہی حق حکمرانی بھی کریں گے، لیکن اس کے بر عکس ہورہا ہے اور یہ کون کررہا ہے ،اس بارے عوام کو پو چھنے کی اجازت ہے نہ ہی جاننے کا حق دیا جارہا ہے ، بلکہ مطا لبہ کیا جارہا ہے کہ آزمائے کو ہی آزمایا جائے گا اور خا موشی سے ان کے ساتھ ہی چلا جائے گا ۔
اس پر عوام سر اپہ احتجاج ہیں ، مظاہرے کررہے ہیںاوریلیاں نکال کر اہل اقتدار سے پو چھ رہے ہیںکہ وہ کس بنیاد پر حق حکمرانی حاصل کیے ہوئے ہیں، اہل اقتدار کے پاس، اس سوال کا کوئی مناسب جواب ہے نہ ہی کوئی قانونی اور آئینی جوازہے ، اس کے باوجود بڑی ہی ڈھٹائی سے اقتدار پر قا بض ہیں، ا س طرح ہی قوم ،اس سوال کا جواب بھی مانگ رہی ہے کہ کس نے 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھا کر اسلام آباد کے تخت پر بٹھایا اور کس نے 2024 کے انتخابات میں فارم سینتالیس کی بنیاد پر آزمائے کو اقتدار سو نپاہے،

آخر ان آزمائے لوگوں میں کیا ایسی خوبی ہے ،جو کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی پاکستانی قوم کے فیصلوں میں نہیں ہے۔ہر دور اقتدار میں اقتدار میں آنے والاایسے ہی کہتا ہے کہ وہ آئین کا پابند ہے،جبکہ آئین کہتا ہے، کہ ہر شہری ریاست کا وفادار ہوگا، ہماری کتنی حکومتیں گزری ہیں کہ جنہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیے اور ان معاہدوں کو قوم کے سامنے رکھا، کوئی ایک حکومت، کسی ایک وزیر اعظم کا نام ہی بتا دیں،

اس حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، اس معاہدے کی ایک شق بھی قوم کے سامنے نہیں رکھی گئی، تو کیا ریاست کے ساتھ آئین کے آرٹیکل پانچ کے مطابق وفاداری تصور کی جاسکتی ہے؟ یہ ایک سوال ہے محض سادہ سا سوال ہے، کیا اس کا جواب قوم کو کبھی مل پائے گا؟
آئی ایم ایف کا ایک وفد ان دنوں بھی پاکستان میں آیا ہوا ہے، اس کی کیا مصروفیات ہیں اور وہ کن لوگوں سے مل رہا ہے ،

اس سے پارلیمنٹ بھی آگاہ نہیں ہے، قوم کی تو بہت دور کی بات ہے، اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں ، جبکہ جمہوریت کہتی ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہی ہو نی چاہئے ، لیکن اس عوام کو رات بھرمعلوم ہی نہیںہوتا ہے کہ انتخابات کے نتائج کیا ہیں اور اس کے مطابق ہی حکو مت بن جائے گی، رات کو نتیجہ کچھ ہوتا ہے اور دن میں کچھ اور ہی نکلتا ہے ،یہ کیسی جمہوریت ہے اور یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کو جیسے بھی اقتدار مل جائے، جمہوریت کا ’’پھل‘‘ بھی اس کو ہی ملتا ہے، باقیوں کے کھاتے میں دھرنے، مظاہرے اور احتجاج ہی رہ جاتے ہیں۔
یہ کیسا ملک ہے، اس جیسا ملک دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملے گا،اس ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں، جو کہ پارلیمنٹ کے اندر ہیں ،مگر اس نظام کو تسلیم نہیں کر رہی ہیں، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ہر امیدوار کو کامیاب ہونا چاہیے، ان کا کوئی ٹکٹ ہولڈر شکست نہیں کھا سکتا، یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ ایسا ہی ہو مگر سیاسی جماعتوں کی اکثریت اس بات پر بضد رہتی ہے کہ اسے جان بوجھ کر شکست دی گئی، آئین اور ریاست دونوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھیں، اگر کوئی جمہوری ریاست ہو تو وہ بھی اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرے ،مگر یہاں تو حکومت ہی قبضہ مافیا بنی ہوئی ہیں اور جمہور کی ہی آواز کو دبارہی ہے ،دیوار سے لگارہی ہے ،اس کا سد باب کیسے ہو گا اور کون کرے گا؟
شائد کوئی کرے گا نہ ہی کوئی کر نا چاہتا ہے ،کیاہمارے ہاں جمہوریت کا ادھورا خواب ادھورا ہی رہے گا، یہ خدشات حقیقت بنتے جا رہے ہیں کہ جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ نہ کبھی آئی اور نہ ہی کبھی آ سکے گی، اس ملک میں جمہوریت بس انسانی حقوق وغیرہ جیسی باتوں پر بھرے پیٹ والوں کا ہی حق ہے تو پھرکیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہاں کبھی جمہوری راج نہ ہو گا ،کیو نکہ اس ملک میںکہیں جمہوریت ہے نہ ہی اس جمہوریت میں کہیں عوام دکھائی دیتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں