ایک نیاء میثاق جمہوریت 92

عالمی امن کو لا حق خطرہ !

عالمی امن کو لا حق خطرہ !

تحریر :شاہد ندیم احمد
روس اور یو کرین کے در میان بڑھتی کشیدگی میں تمام سفارتی کائوشیں ناکام ہو گئیں ،روسی افواج نے یو کرین پر حملہ کردیا ہے ، لیکن اس نئی جنگ نے دنیا کیلئے نئے خطرات پیدا کردیئے ہیںاوراس خدشے کا اظہارکیا جارہا ہے کہ اگراس بحران کا جلد پر امن حل تلاش نہ کیا گیا تو معاملہ تیسری جنگ عظیم کی طرف بھی جاسکتا ہے ، روس اور یو کرین کی جنگ کے شعلے یوکرین تک محدود نہیں رہیں گے،بلکہ اہل مغرب کی جانب بھی بڑھیں گے ،اس کے بعد دنیا کو تباہی سے بچا مشکل ہو جائے گا۔
یہ امر واضح ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ،تاہم ایک بار جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو پھر کسی کے اختیار میں نہیں رہتی ہے ،پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا آغاز ایسی ہی چھوٹی جنگوں سے ہوا تھا ،روس اور یو کرین کے درمیان بھی شروع ہونے والی جنگ کے پھلنے کے آثار دکھائی دیے رہے ہیں

،امر یکہ اور مغربی ممالک روس کو جنگ روکنے کی دھمکیاں دیے رہے ہیں ،جبکہ روسی صدر نے واضح طور پر متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو بہت سخت جواب دیا جائے گا،امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کرتے ہوئے کسی کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی، اب روس بھی اسی راستے پر گامزن نظر آتا ہے۔اس وقت یورپ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے،امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ پوٹن روس کی توسیع پسندانہ پالیسی پر گامزن ہیں

اور مشرقی یورپ کے بعض ممالک میں علیحدگی پسندی کو فروغ دے کر انہیں سابق سوویت یونین کی طرز پر روس کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، یوکرائن اْن کا پہلا ہدف ہے اور اْس کے دو شہروں کو خود مختار ریاستیں تسلیم کر کے انہوں نے اپنے عزائم کا اظہار کر دیا ہے، جبکہ روس کا موقف یہ ہے کہ یوکرائن کو نیٹو کا رکن بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے دروازے پر کھڑے ہو جانا چاہتے ہیں،عالمی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں ،جبکہ دنیا کا امن عالمی قوتوں کے مفادت کے پیش نظر تباہی کے دہانے پر ہے۔
روس یوکرائن تنازعے کی بدلتی صورت حال کیا رْخ اختیار کرتی ہے، اس کا اندازہ تو آنے والے دِنوں میں ہو گا،تاہم اس جنگ کے شروع ہوتے ہی معیشت پر برے اثرات مرتب ہونے لگے ہیں، دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو نے لگی ہیں، یورپ میں گیس کا بحران پیدا ہو گیا ہے، آمدورفت کے ذرائع بند ہو رہے ہیں

،یہ صورت حال امریکہ اور یورپی ممالک کیلئے انتہائی پر یشانی کا باعث ہے، امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے ایک طرف روس اور روسی کمپنیوں پر پابندیاں لگا ئی جارہی ہیںتو دوسری جانب روس پر براہ راست حملے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں،لیکن روس اپنے خلاف اقدامات کی کوئی پرواہ نہیں کررہا ہے۔
روس اور یوکرائن کے تنازعہ کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم کا دورہ روس ایک بڑا چیلنج رہا ہے،تاہم اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے مغربی دنیا سے ناراضی مول لی نہ روس اور چین کے بلاک کے ساتھ تعلقات میں کوئی دراڑ آنے دی ہے ،کیونکہ ہم یورپی یونین کو ناراض کر سکتے ہیں

نہ ہی امریکہ سے دوری اختیار کر کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی مہربانیوں سے دور ہونا چاہتے ہیں، اس لیے وزیر اعظم عمران خان نے روس کے صدر سے اپنے تین گھنٹے کی ملاقات میں جہاں معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا ،وہیںاس اہم موقع پر بھی غیر جانبداری کو تھام رکھا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان شروع سے ہی کسی بھی ملک میں فوجی مداخلت کے خلاف رہا ہے ،پا کستان نے نہ صرف امریکہ اور طالبان کے مابین ایک پل کاکردار ادا کیا، بلکہ ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی معاملات بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہاہے، پاکستان کا اب بھی یہی موقف ہے کہ روس اور یوکرائن مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی کوشش کریں، امریکہ اتنے فاصلے سے یوکرائن کی مدد کے لئے آئے گا

نہ مغرب پرائی جنگ کو اپنے گھر میں لانے کا متحمل ہو سکتا ہے،اس لئے یوکرائن اپنے ہمسائے کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات طے کرے ،تاکہ یہ خطہ جنگ کی آگ سے محفوظ و مامون رہ سکے،عالمی طاقتیں کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں تو ہی دنیائے امن برقرار رہ سکے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں