صد فی صد پڑھا لکھا جرائم سے پاک گاؤں رسول پور پاکستان 215

مقدر میں لکھے سے زائد یا کم کبھی نہیں ملا کرتا

مقدر میں لکھے سے زائد یا کم کبھی نہیں ملا کرتا

نقاش نائطی
اعلی اخلاق و کردار ہی سے دی ہوئی دین اسلام کی عملی دعوت ، غیر مسلمین عالم کو راغب دین اسلام کرسکتی ہے،اگر یہی عقیدہ وایمان پر ہم مسلمان یقین رکھنے والے بنیں اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے لگیں تو یقین مانیں، وقت لگے گا مگر یقینا تمام لوگ بھی ایک دوسرے کا بھروسہ قائم رکھتے پائے جائیں گے اور عالم میں ایمانت داری دیانت داری ہر سو پھیلنے لگے گی

عالم میں اور بہت سے ایسے مقامات ہوسکتے ہیں جہاں کے لوگ قابل بھروسہ امانت دار ہوں لیکن فی زمانہ جاپان ملک اور جاپانی باشندوں نے امانت داری دیانت داری؟ اسلامی اصول والے صاف صفائی پاکیزگی کے ماحول کو من حیث القوم جس طرح سے اپنایا ہے یقینا انہیں ان کے، انہی اقدار نے، عالم میں انہیں ممتازیت عطا کی ہوئی ہے۔ جاپان یا جاپانیوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ کے لاکھوں روپیہ نقد یا کسی شئی کی صورت، سر راہ کہیں پڑے رہ گئے ہوں تو وہاں سے گزرنے والے کی بدنگاہ اس پر نہیں پڑے گی۔

کسی نے گر اسے اٹھایا بھی تو، بے ایمانی کے جذبہ کے ساتھ نہیں، بلکہ پوری ایمانداری کے ساتھ، اسکے مالک تک پہنچانے کی نیت ہی سے اٹھا پولیس یا متعلقہ محکمہ تک پہنچائے گا۔ پاکی صفائی کا جاپانیز اتنا خیال رکھتے ہیں کہ سرراہ کچرا ڈالنا دور، اپنا استعمال کیا گندہ ٹیشو پیپر بھی کچھ قدم چل کر، کچھ کچھ مسافت پررکھےحکومتی ڈسٹ بین میں ڈال دیا کرتے ہیں۔ عموما سگریٹ نوش جاپانیز بھی،اپنے استعمال جلے سگریٹ کی راکھ بھی سر راہ جھاڑنے کے بجائے، اپنے جیب میں ایسی راکھ جمع رکھنے والی ڈبیہ میں محفوظ رکھتے ہیں۔اور پھر مناسب جگہ پر اسے پھینک ڈبیہ صاف کیا کرتے ہیں

زمانہ کی تاریخ شاھد یے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس وقت کے سوپر پاور روم و فارس ایمپائر میں جنگ و جدال سے اپنی حکومتی سرحدیں کم زیادہ کی جاتی رہی تھیں،پاکی صفائی تو دور، اس دور میں شاہی گھرانوں میں بھی ہفتوں مہینوں بعد نہایا جاتا تھا ۔ گندگی اتنی عام تھی کہ انسانی پسینہ کی بدبو کو دور کرنے، بخور و عطور کا استعمال کثرت سے ہوا کرتا تھا۔ ان ایام عالم کو پاکی، صفائی، امانت داری ، وعدہ وفائی کے اعلی اقدار ہم مسلمانوں نے عالم کو دیئے تھے

کچھ حد تک یہ اعلی اقدار، اغیار نے تو اپنالئے ہیں اور ہم مسلمان اتنے گئے گزرے ہوگئے ہیں اور ہم مسلمانوں کے رہائشی علاقے اتنے پراگندہ رہنے لگے ہیں کہ ان گندگیوں اور شور غوغا کو دیکھ کر کہا جانے لگا ہے کہ یہ کہیں مسلمانوں کا علاقہ تو نہیں ہے؟ اور ہم مسلمانوں میں عام، بددیانتی دھوکہ دہی پر، کہیں آپ مسلمان تو نہیں؟والے طعنوں سے ہم مسلمانوں کوشرمسار کیا جانے لگا یے

معاشروں میں ایسے اعلی اقدار یونہی نہیں اچانک آیا کرتے۔اس کے لئے ایک لمبے عرصے تک جڑسےمحنت کرنی پڑتی ہے۔ جاپانی ابتدائی اطفال تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کم عمر بچوں کو زبردستی درسی کتب رٹوانے کے بجائے اخلاقیات صفائی ستھرائی کے درس، عملا بچوں میں ودیعت کئے جاتے ہیں۔ کنڈر گارڈن اور نرسری اسکولوں میں، صفائی ستھرائی کے ملازمین نہیں رکھے جاتے، بلکہ اساتذہ ہی بچوں سے صفائی ستھرائی کا کام اپنی نگرانی میں کرواتے ہوئے،

انہیں ابتداء عمر ہی سے صفائی اور ستھرائی والے ماحول میں جینے کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ ایمانت داری وعدہ وفائی والے اعلی اقدار شروع ہی سے ان میں ڈھالے جاچکے ہوتے ہیں۔ اور ہوش سنبھالنے کی عمر سے یہ اعلی اقدار ان میں ودیعت کرتے کرتے، ایک دو نسل بعد، پورا معاشرہ ہی اس اعلی اقدار والے سانچے میں ڈھل چکا ہوتا ہے۔ دین اسلام اور اسکے اعلی صفائی ستھرائی والے اقدار سے نابلد وہ تقریبا لادین یا کچھ حد تک بدھ مت کے پیروکار جاپانیز، کسی بھی اسلامی ریاست سے بہترین عملی زندگی گزارنے والوں میں سے ہوتے ہیں۔ جب جاپانیز قوم اپنی پوری قوم کو اعلی اسلامی اقدار سے سنوار سکتی ہے

تو کیا ہم مسلمان، وہ بھی خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کے، انبیاء والے دعوتی مشن کو،تا قیامت عالم کے اور ادیان کو ماننے والوں تک پہنچانے کے عظیم دعوتی کام کو ترویج کرنے تفوئض کئے ہوئے ہم مسلمان،اگر اپنے فرض منصبی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، صدق دل سے گر کوشش کریں تو یقینا مسلم معاشرہ اپنے انہی پاکی صفائی، ایمانت داری،دیانتداری، وعدہ وفائی والے اعلی اقدار و کردار سے، عالم کے پینسٹھ فیصد مسیحی ھندوسی و لادین انسانیت میں دین اسلام کی عملی دعوت پہنچاتے ہوئے،پورے عالم کو دائرہ اسلام میں لاتے پائے جائیں گے انشاءاللہ

علامہ عنایت اللہ خان المعروف علامہ مشرقی نے 1906 میں 18 سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی سے ریاضی کی ڈگری حاصل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا، جو غالبا آج تک انہیں کے نام سے قائم ہے اور جنہوں نے اس وقت کیمرج یونیورسٹی برطانیہ سے چار چار ڈگریاں، ٹرائی پوز آنر رینگلر اسکالر، بیچلر اسکالر،فاؤنڈیشن اسکالر اور میکانیکل انجینئرنگ میں اعلی پوزیشن کامیابی حاصل کر، ریگارڈ قائم کئے تھے علامہ مشرقی بلند پایہ انشاء پرواز فلسفی اور مورخ بھی تھے۔

تذکرہ، خریطہ، اشارہ قول و فیصل ، مولوی کا غلط مذہب، حدیث القرآن، تین شعری مجموعے، حریم غیب ،دہ الباب اور ارمغان حکیم جیسی معرکہ الارا تصانیف کے علاوہ،انکی لکھی تفسیر قرآن کے لئے ان ایام انہیں عالمی طور مشہور نوبل انعام تک کے لئے تک نامزد کیا گیا تھاجنہوں نے 1945 عالم میں پھیلتی پھولتی جمہوریت کو زر پرست مافیا کی سازش ثابت کرتے ہوئے، حقیقی اسلامی فطری جمہوریت کا فارمولا “طبقاتی طریقہ انتخاب” کی صورت میں پیش کیا تھا جس میں زر پرست مافیا کا دنیا کے وسائل پر سے ناجائز قبضہ ختم کروانے کا حل موجود تھا

ہمیں یاد پڑتا ہے روس کے بابائے قوم اشتراکیت لینن نے، برطانیہ راج کے اثرات تلے یورپ و امریکہ و تقریبا نصف سے زاید عالم میں مستحکم ہوتے کیپیٹلسٹ پونجی پتی نظام جمہوریت میں، مرتی تڑپتی انسانیت کے مداوے کے لئےاشتراکیت والے نظام کو دنیا سے روشناس کرایا تھا اور یہ خبر جب علامہ مشرقی تک پہنچی تھی تو انہوں فی زمانہ عمومی طور ہم مسلمانوں کے صرف اپنی اور اپنی آل اولاد کی پرورش کی فکر میں غرق و مصروف رہنے کے بجائے، جمہوری و اشتراکی نظام کے مقابلے تقریبا ساڑھے تیرہ سو سال والے عملی دین اسلام کے نظام و افکار کے تحت، انکے اپنے وضع کردہ حقیقی اسلامی فطری جمہوریت کا فارمولا “طبقاتی طریقہ انتخاب” کا تخیل لئے، روس لینن سے ملنے اور اسے قائل کر اشتراکیت والے اسکے نظام کو ترک کر، دین اسلام کے نظام فلکی کو اپنانے قائل کرنے پہنچے تھے اور ان کے علمی دلائل کے سامنے تقریبا زیر ہوتے،

زیرک لینن نے اپنے اشتراکی نظام کو چھوڑنے کی سبکی سے بچنے کے لئے، علامہ کے سامنے جب یہ کہا کہ ہم دین اسلام کے اعلی اقدار کے پوری طرح قائل ہیں۔لیکن اس دین اسلام پر آج تقریبا 1365سال گزرنے کے بعد بھی، کوئی خطہ ارض، یا کوئی مملکت، یا کوئی ملک یا ریاست و شہر مکمل عملی اسلامی اقدار اپنائے،اب دنیا میں معرض وجود میں کیا ہے؟ جس کی بنیاد پر ہم اپنے وضع کردہ اشتراکی نظام کو ترک کر، آپ کے حقیقی اسلامی فطری جمہوریت کے فارمولہ والے “طبقاتی طریقہ انتخاب” کو اپنا سکیں؟ دین اسلام پر عمل پذیر کسی مخصوص پورے علاقے کو تمثیلا پیش کرنے میں ناکام لینن کو، اسکی اشتراکیت عملا” عالم پر نافذ کرنے چھوڑ علامہ مشرقی کو نامراد مایوس لوٹنا پڑا تھا۔کاش کہ تقریبا پورے

اسلامی اقدار پر عمل پیرا، مگر لادین یا ایک حد تک بدھ مت کو ماننے والی، جاپان جیسی ہی اسلامی ریاست گر ہوتی تو علامہ مشرقی، روسی لینن کو قائل کروا،اسکے توسط ہی سے،عالم میں اصلی اسلامی جمہوریت عام کرچکے ہوتےاور آج پورے عالم کی انسانیت اصلی اسلامی جمہوریت سےمستفید ہورہی ہوتی۔اس اکیسویں صدی کے پہلے ربع حصے ہی میں عالم کی اولین جمہوریت، عالم کی اکلوتی سوپرپاورصاحب امریکہ کے منتخب صدر حاضر ٹرمپ ہی کی سرپرستی میں، امریکی قانون ساز تاریخی عمارت پر یلغار کر نہ صرف امریکہ بلکہ عالم سے عنقریب

جمہوریت کا جنازہ اٹھنے کا نظارہ انسانیت نے دیکھ لیا ہے اور عالم ہی کی سب سے بڑی جمہوریت چمنستان بھارت میں، جمہوریت ہی کے نام سے چند پونجی پتیوں کے مفاد کے لئے ،کروڑوں کسانوں کے مستقبل کو تاراج و برباد کرتے پاس کرواتے قانونوں کو دیکھ کر، اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ گیا ہے کہ عنقریب ہی عالم کی سب سے بڑی جمہوریت کا گلا گھونٹ اسے زبردستی مار، ہزاروں سالہ مختلف المذہنی گنگا جمنی سیکیوکر تہذیبی ملک چمنستان بھارت سے عالم کی سب سے بڑی جمہوریت کا راج چھین، اسے سناتن دھرمی چھوت چھات والے منافرتی ملک میں تبدیل کیا جائیگا اور یوں بتدریج عالم سے جمہوریت کا جنازہ نکالا جائیگا

عالم کی دوسری بڑی ہم 180 کروڑ مسلم اقلیت،ماننے کو تو تقدیر رزق کو ایمان کا جزو مانتے ہے لیکن عملا اس کا انکاری ہونے ہی کی وجہ سے، اپنے اخلاقیات ایمانت داری، دیانت داری کو تلف کئے دنیا سمیٹنے میں نہ صرف جئے جارہے ہیں بلکہ اپنے پراگندہ ماحول و بداخلاقی بدکرداری والے اعمال سے ،اپنی ذاتی کاوشوں سے راغب اسلام ہونے والے مائل اسلام انسانوں کو متنفر اسلام اور دین اسلام سے دور کرنے کا باعث بن رہے ہیں

جبکہ حج الوداع کے موقع پر ہمیں رحمت العالمین کی طرف سے ودیعت کئے گئے فرض منصبی دعوت دین الی الکفار والی عظیم ذمہ داری تاقیامت ہمیں نبھانی یے۔ ایسے میں اب بھی کیا من حیث القوم مسلم، فی زمانہ ہم میں رائج باپ دادا سے ہم میں چلے آرہے مختلف افکار و خیالات ہی کو یکسر چھوڑ کر 1400 سال قبل والے، تمام تر اسلامی اقدار والے،اصل دین حنیف پر عمل پیرا رہتے ہوئے، اپنے بلند اخلاق و کردار سے عملی اسلام کی صحیح معنوں ترویج کرتے ہوئے دین اسلام کی دعوت کو عام کرتے، اپنی دنیوی و اخروی زندگی کو کامیاب نہیں کرسکتے ہیں؟ اس پر سوچنا تدبر کرنا اور عمل کرنے کی کوشش ہم تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ اور کوشش کرنے سے کوئی بھی ناممکن کام ممکن کیا جاسکتا ہے

مالک ورزاق دوجہاں، اللہ رب العزت کے ساتھ ہی ساتھ، اپنے انجان گراہکوں پر مکمل بھروسہ کرتی تجارتہم نے سیرت کی کتابوں میں بارہا یہ بات پڑھی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں،نہ صرف اسلامی ریاست کے دارالخلافہ مدینہ منورہ کے بازاروں میں جب آذان کی آوازیں گونجتی تھیں تو مسلمان تاجر اپنی دوکانیں توکل علی اللہ کھلی چھوڑ فرض نماز کی ادائیگی کے لئے مسجدوں میں جایا کرتے تھے، بلکہ ابھی ماضی قریب میں، ڈیڑھ دو سو سال قبل،خلافت عثمانیہ اسلامیہ کے دارالخلافہ ترکیہ میں بھی، بعد اذان تاجر حضرات اپنی دوکانیں توکل علی اللہ کھلی چھوڑ مساجد کی طرف رخ کیا کرتے تھے۔

اس گئے گزرے دور میں عالم کے انیک ملکوں شہروں میں جہاں چند ڈالر کے لئے انسانی جانوں سے سے کھلواڑ عام سا مرض ہوکر رہ گیا ہے مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ المکرمہ میں عین حرم مکی مسجد حرام کے سامنے سرراہ بہت بڑا بیکری اینڈ اسٹور تمام اشیاء فروخت پر قیمت لگے اسٹیکر کے ساتھ بغیر مالک و ملازمین، انسانیت کے تصرف کے لئے کھلا رکھ چھوڑا جاتا ہے جہاں پر حرم مکی میں سال بھر ہمہ وقت پہنچنے والے لاکھوں زائرین حج و عمرہ کی بھیڑ، اپنی اپنی ضرورت کی اشیاء خود لیتے ہیں خود اس کا حساب جوڑ دوکان کے ایک حصہ میں رکھے کھلے کیش کاونٹر میں نقد یا لاسلکی طریقہ سے رقم ادا کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے خریدے ہوئے سامان ضرورت سے کم رقم ادا کی ہے

یہ دیکھنے کے لیے تاجر کی طرف سے کوئی بشر وہاں موجود نہیں ہوتا ہے۔تاجر نے اپنے رزاق کے بھروسے اپنے گراہکوں پر بھروسہ کر، دوکان کھلی چھوڑی ہوئی ہے اور اس کے گراہک بھی خوف خدا کے چلتے پوری دیانت داری سے اپنی لئے ہوئے سامان ضرورت کی قیمت ادا کیا کرتے ہیں۔مکہ المکرمہ کی اس پہلی بغیر مالک و ملازم دوکان کامیابی کو دیکھتے ہوئے سعودی شہر قنفدہ گاؤں میں ایک ایسی ہی ضروریات زندگی کی دوکان شروع کی گئی ہے جسے خود کار انداز چلتے ہوئے اس ویڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے۔کاش کہ ہم عالم کے مسلمان اپنے اسلامی ایمانت داری دیانت داری ، وعدہ وفائی والے اسلامی اعلی اقدار پر مکمل عمل پیرا رہیں تو اعلی اخلاق و کردار ہی سے دین اسلام کی عملی دعوت غیر مسلمین عالم کو راغب دین اسلام کرپائے۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں