مہنگائی پھر بڑھ رہی ہے !
عوام کو ریلیف دینے کی خواہش کا اظہار تو ہر حکومت ہی کرتی رہی ہے اور ہر حکومت ہی کچھ نہ کچھ اقدام کرنے کی سعی بھی کرتی ہے، لیکن اس پر مسلم لیگ (ن) کی اجارہ داری کیسے قبول کی جا سکتی ہے اوراس دعوئے کو کیسے مانا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکو مت میں ہی عوام کو رلیف ملتا ہے،
یہ دعویٰ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ہی مترادف ہے، میاں برادران سچائی کو سمجھنے اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کام کرنے کی بجائے، ابھی تک وہی ڈھول بجا رہے ہیں کہ جس کی آواز سے اب کان بھنانے لگتے ہیں،یہ دعوے ہی گمراہ کن ہیں کہ تحریک انصاف نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اورمسلم لیگ (ن) اسے پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن کر رہی ہے، ملک میں ٍ مہنگائی میں کمی اورسیاسی استحکام لا رہی ہے، جبکہ ایساکچھ بھی نہیں ہورہا ہے ،گورنراسٹیٹ بینک نے واضح کر دیاہے کہ مہنگائی کم ہو نے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے
کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اورحکومتی عہدیداران بالخصوص وزیر اعظم میاں شہباز شریف دعوئے کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 38فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد پر آگئی ہے،وہ اس شرح میں کمی پر اطمیان کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں،بلکہ اس عزم کا بھی اعادہ کرتے ہیںکہ پاکستان کو معاشی طور پر دنیا کے صف اول کے ممالک کی صف میں کھڑا کر دیں گے، ان کا کہنا ہے کہ حکومت معاشی اصلاحات کی پالیسی پر گامزن ہیاور24 سال بعد کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہوا اور افراط زر 38 فیصد سے کم ہو کر 4.1 فیصد پر آ گیا ہے،
جبکہ اسٹاک مارکیٹ دنیا کی دوسری بہترین مارکیٹ بن چکی ہے، پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 13 فیصد پر آ گیا ہے، مگر یہ مہنگائی کم ہونے کی ساری خوش کن باتیں محض اعداد و شمار تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور عوام مزید مہنگائی کے طوفان کا سامنا کر کر رہے ہیں۔
اتحادی حکومت جس مہنگائی کی کمی کا مڑدہ قوم کو سنا رہی ہے،اس کے اثرات غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ستائے عوام کو کہیںنظر نہیں آرہے ہیں، اسٹیٹ بینک نے بھی ان سارے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے ،گورنراسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی پھر بڑھ رہی ہے، آئی ایم ایف سے قسط تاخیر کا شکارہے
اور اگلے بجٹ میں کھانے پینے کی عام اشیاء پر ٹیکس بڑھنے جا رہا ہے ، کیو نکہ‘ 26 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں ہیں اس کیلئے‘ 16ارب ڈالر رول اوور یا ری فنانس کر نے ہوں گے‘ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کا فرق بھی کم ہو چکا ہے ، اس لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے متعدد اشیا مہنگی ہونے کا امکان ہے، عوام پہلے ہی مرے ہوئے ہیں ، انہیں مزید مارا جارہا ہے ،دیوار سے لگایا جارہا ہے ، اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ ملک وعوام کوخوش حالی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔
یہ صورتحال معاشی دبائواور بے یقینی کی طرف اشارہ کرتی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ بیانات تک محدود نہ رہے، بلکہ عوام دوست پالیسیاں مرتب کرے، اگروزیر اعظم پاکستان کو معاشی اعتبار سے دنیا کے صف اول میں ہی کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے،مائیکرو فنانس اسکیم کا آغاز کرنا ہو گا،
چھوٹے قرضوں کے ذریعے کم آمدنی والے طبقے کو کاروبار شروع کرنے کے قابل بنانا ہو گا،تاکہ وہ خودکفالت کی راہ پر گامزن ہو سکیں،نوجوانوں کو ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ فراہم کر نا ہو گی ، اس کے ساتھ سبسڈی پالیسی کو بہتر بنا کر صرف مستحق افراد تک محدود رکھا نا ہو گا، جبکہ ٹیکس نظام میں شفافیت اور بہتری لا کر ریاست کی آمدنی کو فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنا ہو گا،یہ تمام اقدامات نہ صرف مہنگائی اور بے روزگاری کے
کے، خاتمے میں مددگار ہوں گے، بلکہ ایک پائیدار اور مستحکم معیشت کی بنیاد بھی رکھیں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکو مت کو جہاں عوام دوست پا لیسیوں کاآغاز کر نا ہو گا ،وہاں تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی ایک ٹیبل پر بٹھانا ہو گا، یہ ہی معاشی استحکام اور خوشحالی کی طرف لے جانے کی کنجی ہیں،گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں
اور آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض سود در سود کے باعث ادا کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتے جارہے ہیں،پاکستان کو قرض سے نجات کی بجائے اب سود کی ادائیگی کیلئے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے، اس لیے ملک کو معاشی چیلنجز سے نکالنے کیلئے سیاسی قیادت کا سر جوڑ کر معاشی اتحاد یامیثاق معیشت ازحد ضروری ہوچکا ہے، مگرسوال یہ ہے کہ کیا اس حوالے سے ہمارے حکمراں اور اپوزیشن قیادت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تیار ہوں گے