مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ ! 35

میرٹ پر کوئی سمجھو تہ نہیں !

میرٹ پر کوئی سمجھو تہ نہیں !

اس ملک میںہر دور حکو مت کے وزیر اعظم اکثر اپنی تقریروں میں میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا یقین دلاتے رہتے ہیں، مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ملک میں میرٹ اور عدل و انصاف کا نہیں، بلکہ رشوت، سفارش اور طاقت ور کا ہی راج رہا ہے، وزیر اعظم میاں شہباز شریف بھی دعوئیدارہیں کہ اُن کے دور حکومت میں ہر کام خالص میرٹ پر کیا جارہا ہے اور میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے، مگر کون نہیں جانتا ہے

کہ ہمارے یہاں میرٹ کے نام پر کو نسے ڈرامے رچائے جارہے ہیں اور کس طرح سے غریب عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے،اس ملک میں نعروں اور زبانی دعوئوں سے میرٹ کی بالادستی ممکن نہیںہے ، اس کے لیے حکمران خاندانوں کو اپنی عملی مثالیں قوم کے سامنے پیش کرنا ہوں گی، اس ملک کا ہر فرد اظہار کرے نہ کرے ،مگراس بارے سوچتا ضرور ہے کہ یہ کیسا نظام ہے کہ جس میں چند مخصوص جاگیردار اور سرمایہ دار خاندانوں کے باہر کا کوئی فرد کتنا ہی با صلاحیت اور اہلیت کا حامل رہے ، ملک کے معاملات سے متعلق اہم فیصلوں میں شریک نہیں ہو سکتا ہے، کیا اقتدار کی راہداریوں پر صرف بار ہا آزمائے شریف اور بھٹو خاندان کا ہی حق ہے اور عوام کے حقیقی نمائندے پا بند سلاسل ہی رہیں گے ۔
اگر دیکھا جائے تو طاقت کا سر چشمہ عوام کو کہنے والوں نے ہی عوام کو کمزور کیا ہے ، عوام کو کبھی حق رائے دہی دیا ہے نہ ہی عوام کے فیصلے کو کبھی مانا ہے ، عوام کو کبھی اپنی تر جیحات میں شامل کیا ہے نہ ہی عوام بارے سوچا گیا ہے ، عوام کو بار ہا اپنے لئے استعمال کیا گیا اوراب بھی کیا جارہا ہے

،عوام پر ہی سارا بوجھ ڈالا جارہا ہے اورعوام کو ہی آزمائش میں ڈالا جارہا ہے ،عوام سے ہی قر بانی کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، عوام سے ہی کہا جارہا ہے کہ قرضوں سے نجات حاصل کر نا ہے تو ریو ینوبڑھانا ہو گا ،یہ سب کچھ عرصہ دراز سے کہا جارہا ہے ، مگر اس ملک کا قر ض اُترا ہے نہ ہی عوام کو سکھ کا سانس لینے دیا گیا ہے ، عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ منہ سے آواز بھی نکالی نہ جائے ، کوئی آہو بکا بھی نہ کی جائے ، بس خاموش رکھتے ہوئے فر ما بر داری کی جائے ، لیکن شاید اب ایسا نہیں ہو گا ، عوام باشعور ہو چکے ہیں اور جاننے لگے ہیں کہ اُن کے ساتھ کو نسا کھیل کھیلا جارہا ہے، میرٹ کے نام پر کیسا سمجھوتہ کیا جارہا ہے؟
عوام کو کبھی بیر ونی امداد پر بہلایا جاتا ہے تو کبھی اپنے ہی معدنی وسائل پر ور غلایا جاتا ہے ، عوام کو حقائق سے دور رکھا جاتا ہے اور اتنا ہی بتایا جاتا ہے کہ جتناحکمران طبقے کو سوٹ کرتا ہے ، انسانی وسائل سے لے کر قدرتی وسائل تک ابہام میں ہی رکھا جاتا رہا ہے ، اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کی نوجوانوں کی بھاری اکثریت وطن چھوڑ کر بیرون ملک جانے
کو ترجیح دے رہے ہیںاور نقل مکانی کی خاطر اپنا مال وجان تک خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کررہے ہیں،اس لیے ہی ا ٓئے روز اطلاعات ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ بیرون ملک کشتی الٹنے یا ڈوبنے سے سیکڑوں پاکستانی نوجوان جان کی بازی ہار جاتے ہیں، مگر اندرون ملک مایوسی اتنی بڑھتی جارہی ہے اور حالات اتنے ناگفتہ بہ ہوتے جارہے ہیں کہ غیر قانونی طریقوں سے ترک وطن کا جاری سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
اس بارے وزیر اعظم اپنی تقریروں میں تسلسل سے اظہار خیال کرتے رہتے ہیں اور حالات کی بہتری کے لیے ان کی جانب سے مختلف اعلانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، مگر ان کے مثبت اثرات بہرحال تاحال دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں،اس کی بڑی وجہ، ملک میں جاری فرسودہ نظام کے سوا کچھ نہیں ہے، اس نظام میں جب تک مشاورت سے اصلا حات نہیں کی جائیں گی اورجب تک میرٹ کے نام پر سمجھوتتے کر نا چھوڑا نہیں جائے گا،

یہاں کچھ بدلے گا نہ ہی اس کے اثرات عام عوام تک پہنچ پائیں گے، وزیر اعظم میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا عزم دہراتے ضرور رہتے ہیں ، لیکن اس ملک میں میرٹ اور عدل و انصاف کا نہیں، بلکہ رشوت وسفارش کا ہی راج چل رہاہے، ایک عام غریب آدمی کا بچہ خواہ کتنا بھی محنتی ، با صلاحیت اور اہلیت کا حامل رہے،اس کا حق، اس وقت تک ملنا ممکن نہیں ہے، جب تک کہ بھاری رشوت یا زور دار سفارش کا بندوبست نہ کر لے، اس کے برعکس معاشرے کے با اثر اور طاقت ور طبقے کے نوجوان اپنے اثر رسوخ کے ذریعے نہ صرف ڈاخلے لیتے ہیں

،بلکہ اعلیٰ عہدوں تک بھی پہنچنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں،اس معاشرتی طرز عمل سے نئی نسل میں شدید مایوسی اور نا امیدی جنم لے رہی ہے،اس مایوسی کی فضاء کے خاتمے کرنے کے لیے ایک ایسے منصفانہ شفاف نظام کی تشکیل ناگزیر ہے کہ جس میں نوجوانوں کو بلا امتیاز میرٹ پر مساوی مواقع اور مساوی حقوق فراہم کیے جاسکیں،اس کے بغیر ملک کا مستقبل کبھی تابناک نہیں ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں